صوبائی حکومت اور خستہ حال سڑکیں
تحریر: دردانہ شیر
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی وفاق میں پانچ سال حکومت کے پورے ہوگئے اور اب ملک میں نگران حکومت بنی ہے اور آئندہ الیکشن میں کس پارٹی کی حکومت آتی ہے یہ تو الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ آج سے پانچ سال قبل مسلم لیگ (ن) کی جب وفاق میں حکومت بنی تو گلگت بلتستان کے عوام کو اس پارٹی سے بڑی امیدیں وابسطہ تھی کہ اب گلگت بلتستان کے مسائل بھی حل ہونگے جس میں سب سے اہم یہاں کے عوام کے جو مسائل تھے وہ خطے کی خستہ حال سڑکوں کی تعمیر کا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے گلگت بلتستان میں سڑکوں کےجال بچھانے کا اعلان کیا تھا جس میں گلگت چترال روڈ، استور سے مظفر آباد شاہراہ کی تعمیر کے علاوہ دیگر شاہراہیں شامل تھی مگر نہ تو گلگت چترال روڈ بنا نہ ہی استور مظفر آباد شاہراہ کی تعمیر ہوئی البتہ سکردو روڈ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ مگر دیگر اہم شاہراہوں کو تعمیر کرنا (ن) کی حکومت نے مناسب نہیں سمجھا جس باعث یہاں کے عوام کو آمدورفت میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں سیاح گلگت بلتستان کا رخ کر تے ہیں اور یہاں کی پرُ فضا مقامات پر ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو اگر کوئی شکایت ہے تو وہ گلگت بلتستان کی خستہ حال سڑکیں ہیں جن پر سفر کے دوران ان سیاحوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسر اقتدار آئی تو گلگت بلتستان کے عوام بھی یہ توقع لگا بیٹھے تھے کہ اب پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی شاہراہوں کا جال بچھایا جائیگا۔ مسلم لیگ کی حکومت کے پانچ سال وفاق میں پورے ہوئے گلگت بلتستان میں ابھی تک (سوائے سکردو روڈ کے )دیگر شاہراہوں کی تعمیر تو دور کی بات ہے مرمت بھی نہیں ہوئی ہے۔
مسلم لیگ کی وفاقی حکومت نے بھی صرف گلگت بلتستان کے عوام کو سبز باغ دیکھائے اور عملی طور پر کوئی کام نہیں کیا۔ حکمرانوں نے ا ستور روڈ کو شونٹر کے راستے مظفر آباد تک ملانے کی بلند بانگ دعوے کئے تھے جبکہ خود استور روڈ کی جو حالت ہے وہ بھی قابل رحم ہے۔
اس کے علاوہ گلگت غذر روڈ کی طرف آتے ہیں اس روڈکو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت نے غذر کے عوام کو جس انداز میں نظر انداز کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس سال غذر میں ایک اندازے کے مطابق اب تک دو لاکھ سے زائد سیاح آئے اور غذر کے راستے ہزاروں سیاح دنیا کے بلندترین پولو گراونڈ شندور پہنچ گئے مگر یہاں آنے والے سیاحوں کو سب سے زیادہ شکایت گلگت غذر روڈ کی خستہ حالی کا تھا۔ گلگت غذر روڈ اس وقت دنیا کا ایک اضافی عجوبے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پھنڈر سے شندور تک کی کچی سڑک جو کہ صرف پچیس کلومیٹر ہے۔ اس پچیس کلومیٹرروڈ کو میٹل نہ کرنے کی وجہ سے راستہ تین گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔
حکمرانوں نے غذر کو جس طرح نظر انداز کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کبھی غذر روڈ کو سی پیک میں شامل کرنے کی نوید سنائی جاتی تو کبھی گلگت گاہکوچ ایکسپرس وے بنانے کے جھوٹے خواب دیکھائے گئے۔ عملی طور پر گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گاہکوچ کے نواحی گاؤں گورنجر کے سامنے محکمہ تعمیرات کے ماڈل کے طور پر بنایا گیا پندرہ سو فٹ روڈ کا افتتاع ضرور کیا۔ اس نمونے کے طور پر بنایا گیاروڈ کا افتتاع ہوئے دو سال گزر گئے مگر اس پندرہ سو فٹ سے مزید ایک فٹ روڈ تعمیر نہ ہوسکی۔ افتتاع کے بعد گاہکوچ بیارچی روڈ کی توسعیی منصوبے کی تعمیر ہی بند کر دی گئی۔ ایسا کیوں کیا گیا اس کا جواب تو وقت کے حکمران ہی بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔
دوسری طرف وزیر اعلی گلگت بلتستان نے گلگت میں سینئر کالم نگاروں سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ گلگت بلتستان کی حکومت صوبائی بجٹ سے گلگت سے گاہکوچ تک کے کے ایچ طرز کی شاہراہ تعمیر کرارہی ہے جس پر ڈیڑھ ارب روپے کی خطیر رقم مختص کردئیے گئے ہیں اور اس اہم شاہراہ کی تعمیر یکم جنوری2017سے شروع کیا جائیگا مگر وزیر اعلی کا یہ اعلان بھی صرف اعلان کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا۔ تاحال اس اہم شاہراہ کی تعمیر کاکام کا آغاز تو دور کی بات ہے اس کا ٹینڈر تک نہیں ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ گلگت سے گاہکوچ تک روڈ پر جو تارکول اکھڑ گیا ہے اس پر ٹاکی لگانے کا ٹینڈر ہوگیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ صوبائی حکومت، جس کے دور اقتدار کے تین سال پورے ہوگئے ہیں، علاقے کے عوام کی اہم ڈیمانڈ شاہراہوں کی تعمیرتھا مگر دیکھا جائے تو کسی ایک اہم شاہراہ کی تعمیرکےکام کاآغاز نہیں ہوا (سوائے سکردو کے )۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ غذر سے گلگت کی حدود تک غذر روڈ کی توسعیی منصوبے کی تعمیر کاکام بند ضرور ہوا۔
گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت گلگت بلتستان کو اگر ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے تو ہمارے حکمرانوں کو گلگت چترال روڈ کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لینی ہوگی۔ یہ سڑک شاہراہ قراقرم کے متبادل کے طور پر استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ اگر عوام کو صرف وعدوں کی حد تک رکھا گیا تو آئندہ آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ کی حالت وہ ہوگی جو2013میں جی بی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ہوئی تھی۔
حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آج کے حکمران اور کل کے امیدوار صوبائی اسمبلی کس منہ سے عوام کے سامنے ووٹ لینے جائینگے۔ چونکہ اب مسلم لیگ (ن) کی گلگت بلتستان کے حکمرانوں کے پاس صر ف ڈیڑھ سال کا عرصہ رہ گیا ہے۔ ان ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں انھوں نے عوام سے کئے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کئے تو ائندہ الیکشن میں انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔