چترال کے باسیوں کے نام کھلا خط : لوگ اسرار کو چاہتے ہیں
نئیر علی بونی
پہلی وضاحت میں اپنے بارے میں کرنا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے قطعی طور پر نہیں ہے اور نہ رہی ہے ۔ البتہ ایک فرض شناس شہری کی حیثیت سے ہر برسر اقتدار حکومت کی احکامات پر کما حقہ عمل کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستا ن کے ایک شہری کی حیثیت سے ہم میں سے ہرپاکستانی ملک کے مستقبل کو درخشاں دیکھنا چاہتا / چاہتی ہے ۔ ہمارے آنے والے دن کیسے ہوں گے ، ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے یا مزید گھپ اندھیروں کی طرف سفر کریں گے ؟ یہ فیصلہ الیکشن کے بعد ہی ہوسکتا ہے ۔
پاکستان کے موجودہ حالات سب پر عیاں ہیں ۔ ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے ہیں ۔ ملک کا سارا خزانہ لوٹا جا چکا ہے اور ہم سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ قوم کے خون کو چوسنے کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے ۔ آپ سب نے یہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پاکستان پر صرف دو خاندانوں کا تسلط رہا ہے ان میں زرداری اور شریف برادران سر فہرست ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں اسی سادہ لوح عوام نے گویا اپنے اُپ کو لوٹنے کے لئے اپنے اوپر مسلط کرتے رہے ۔ اور یہ لوگ بجائے رعایا کو سہارا دینے کے ، اُن کو سنبھالنے کے ، اُن کو خوشحال بنانے کے اُن کو لوٹنے کا کوئی ایک موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے اقتدار کو سبوتاژ کرنے کی خاطر دہشت گرد جماعتوں کو غیر مرائی طریقوں سے تشکیل کرتے رہے ۔ جن کی وجہ سے معصوم عوام اور ہماری جانوں اور آبرو کے محافظ پاکستان آرمی کے جوان لقمہ اجل بنے ،عبادت گاہیں مسمار ہوئیں خون کو ہولی کھیلی گی ۔ ان کی جڑٰیں اتنی مظبوط ہو چکی ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف بات کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک ایک مردہ لاش ہے اور یہ دو گروہ جنگل کے وہ خونخوار اور صدیوں کے بھوکے جنگلی جانور ہیں جو اس لا وارث لاش کو چیر پھاڑ کر اپنے اپنے بلوں اور کچھاروں کی طرف لے جا رہے ہوں ۔ ان لوگوں کے ہاتھوں اس ملک کی دوسری مثال ایک ایسی طوائف کی ہے جو غلطی سے گلی کوچوں کے آوارہ لڑکوں کے ہتھے چڑھ گئی ہو ۔ ہر اوباش اور آوارہ اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ۔ اب لیکشن کا دور دورہ ہے تو یہ لوگ ہمیں راتوں رات بادشاہ بنانے کا جھانسا دے رہے ہیں۔ پرانی دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں ، ایک دوسرے سے نسلی رشتے جوڑ رہے ہیں ، مسلک اور علاقائیت کا زہر اگلا جا رہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم راتوں رات کیسے امیر بنیں گے اور پیسہ کہاں سے آئے گا ؟ ملک میں پیسہ یوں ہی نہیں آتا بلکہ اس کے لئے زمین پر موجود وسائل کو کھوجنا ہوتا ہے اور اس مٹی کو کھرجنے سے اور اس مٹی سے محبت کرنے سے علاقے ترقی کرتے ہیں ۔ یہاں تو کہانی عجیب ہے ۔ ملک قرضوں میں ڈوب کر انتا کمزر ہوا ہے کہ سر آٹھا نہیں سکتا اور دشمن ہر طرف سے اس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہے ۔ ہمیں ترقی کی راہوں میں گامزن کرنے کے لئے نیئے اور زمانے کے تقاصوں سے مانوس تعلم یافتہ نو جوانوں کی ضرورت ہے ۔ ایسے نوجواں جو ملک کی نامور یونیور سٹیوں سے سند یافتہ ہوں جو یہ جان سکتے ہوں کہ معیشت کو کیسے پروان چڑھایا جا سکتا ہے اور جنہیں معلوم ہو کہ مارکیٹنگ کے بنیادی اصول کیا ہیں کہ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے چھوٹے زمینداروں کی محنت کو دنیا سے آسانی سے متعارف کرا کر زر مبادلہ کے بہتر مواقعے پیدا کئے جائیں ۔
میں تمام پارٹیوں ، زات پات ، مسلک ، علاقہ اور زبان سے قطع نظر اپنے علاقے میں مذکورہ صفات کے حامل صرف ایک ہی نو جواں کو دیکھ سکتا ہوں جو کہ کسی بھی طوفان سے نبرد آزما ہونے کی جسارت رکھتے ہیں اور وہ ہیں اسرار بھائی۔ میرا اس نو جوان سے کوئی ذاتی مراثم نہیں ہیں البتہ ان کے دل میں عوامی خدمت کے مثبت جذبات کی عکاسی اُن کی تقریروں سے ہوتی ہے ۔ ہمارے باقی جتنے بھی بہن بھائی آج تک اس منصب میں فائز ہوئے ہیں اُن میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سوچا ہے کہ ہم اپنی زمینوں سے سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے آبی زخائیر کو کیش کر سکتے ہیں اور ٹورزم کو پروان چڑھا کر ترقی کے نئے راستے کھول سکتے ہیں ۔ مجھے اسرار صبور کے ایک دو جہگوں پرخطابات کی حرکی تصاویر دیکھنے کو ملیں جن میں انہوں نے حقیقی ترقی کی جانب عوام کی توجہ مبذول کروائی ہے ۔ اُن کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر خدمت کا سچا جذبہ موجود ہے ۔ کہتے ہیں کہ قسمت ایک مرتبہ کسی کے دروازے پر دستک دیتی ہے ۔ اسرار ہماری قسمت کی دستک ہے ۔ اس بار بھی اگر ہم نے قوم ، مذہب اور علاقے کا دامن نہیں چھوڑا تو پھر ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے ۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا اللہ الا اللہ
(مراسلہ نگار کی رائے اُن کی ذاتی ہے ، ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ )