چترال بھرمیں سیاسی گہماگہمی عروج پر
سیدنذیرحسین شاہ نذیر
چترال صوبہ خیبر پختونخواہ کے انتہائی شمالی حصے پر واقع ایک اہم ضلع ہے جوکہ ہندوکش کی پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی ترچ میر کے دامن میں واقع ہے ۔ ضلع چترال کا کل رقبہ14850 مربع کلومیٹر ہے جہاں قومی اسمبلی کے ایک اورصوبائی اسمبلی کے دونشست تھے۔
گذشتہ مردم شماری میں چترال کی آ بادی کوکم ظاہرکرکے اُس کی سابقہ ایک سیٹ ختم کردی گئی ہے اسی طرح یہ ضلع ایک قومی اورصوبائی سیٹ پرمحدود ہوکررہ گیاہے۔حتمی فہرست کے مطابق قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ این اے ون اب پشاور کے بجائے چترال ہوگا، جبکہ آخری حلقہ لسبیلہ بلوچستان ہوگا۔اورصوبائی اسمبلی کاپہلاحلقہ پی کے پشاورکے بجائے پی کے ون چترال ہوگا۔سیٹ ختم کرنے پر ضلع کے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور منتخب نمائندوں سول سوسائٹی، ٹریڈرز، وکلاء اور صحافی تنظیموں نے سیٹ کی بحالی تک احتجاجی تحریک چلانے اور آئندہ انتخابات کے بائکاٹ کی دھمکی دیدی تاہم تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اپنے وعدے کاپاس نہ رکھتے ہوئے آنے والے الیکشن کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ چترال انتہائی پسماندہ اوردورافتادہ ضلعے کے سیٹوں میں اضافہ کرنے کی جگہ یہاں کی ایک سیٹ کم کرکے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک کیاگیاہے۔
ملک کے دیگرحصوں کی طرح چترال میں انتخابی تیاریاں آخری مرحلے میں داخل ہونے سے ضلع بھرمیں سیاسی گہماگہمی عروج پرپہنچ گئی ہیں۔چترال شہراوردیہات میں ہرروزکسی نہ کسی سیاسی جماعت یاآزادامیداورکی طرف سے کارنرمیٹنگ کی خبریں آرہی ہیں ۔لیکن ابھی تک ضلعی سطح پرکسی سیاسی جماعت نے جلسہ عام کے ذریعے اپنی سیاسی قوت کااظہارنہیں کیاہے ۔چترال میں قومی اسمبلی کی واحدنشست این اے ون کیلئے 11امیدواراوراسی طرح صوبائی اسمبلی کی واحدنشست پی کے ون کے لئے 16امیدوارمیدان میں ہیں۔قومی اسمبلی کی نشست کیلئے پاکستان مسلم (ن)کاشہزادہ افتخارالدین،پاکستان پیپلزپارٹی کاسابق ایم پی اے سیلم خان ،پاکستا ن تحریک انصاف کاعبدالطیف،متحدہ مجلس عمل کاسابق ایم ای اے مولاناعبدالاکبرچترالی،آل پاکستان مسلم لیگ کاڈاکٹرمحمدامجد،عوامی نیشنل پارٹی کاالحاج عیدالحسین میدان میں ہیں جبکہ آزادمیدواروں تقدیرہ اجمل ،سیدالرحمن،محمدیحی اورنثارستگیرشامل ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کے امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ ن کاعبدالولی خان ایڈوکیٹ،پی پی پی کاسابق ایم پی اے حاجی غلام محمد،پی ٹی آئی کااسرارالدین،ایم ایم اے کامولاناہدایت الرحمن،اے این پی کاسرداراحمد،اے پی ایم ایل کاسہرا ب خان،پاکستان راہ حق پارٹی کاسراج الدین ،پاکستان سرزمین پارٹی کاعطاء اللہ اورآزادامیدواروں میں امیراللہ ،سعادت حسین مخفی،شفیق الرحمن،شہزادہ امان الرحمن ،عبدالرحمن،مصباح الدین،اوروزیرخان مدمقابل ہیں۔
قومی اورصوبائی اسمبلی دونوں حلقوں میں اس بات کایقین توکیاجاسکتاہے کہ اصل مقابلہ چارسیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی،پاکستان تحریک انصاف،متحدہ مجلس عمل اورپاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہوگا۔لیکن ابھی یہ وثوق سے کہناقبل ازوقت ہوگاان سیاسی جماعتوں میں کس کاپلڑابھاری ہوگا۔
تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماروایتی اندازمیں اپنی اپنی کامیابی کے لئے تشہیری مہم میں مصروف عمل نظر آتے ہیں جبکہ کچھ سیاستداناپنے زبان اورانداز بیان کی وجہ سے مشہور ہوگئے ہیں جن کوسننے کے لئے عوام پارٹی وابستگی سے بالاترہوکراجتماع میں شامل ہوکرافرادی قوت کومضبوط دیکھاتے ہیں یہ لوگ صرف تقریرسننے تک نظرآتے اُن کے سیاسی وابستگی کسی دوسری جماعت سے ہوتی ہے اورووٹ اپنے سیاسی وابستگی کے مطابق استعمال کرتے ہیں ۔بڑے جلسوں کودیکھ کربھی تقربیا15فیصدلوگ متاثرہوکرپارٹی وفاداری سے ہٹ کرعوامی جذبا ت کی قدرکرتے ہوئے حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔جن کی زندہ مثال چترالی عوام کے سامنے ہیں ۔مگرچترال کی تاریخ میں آزادامیدوارچترال میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں 2008کے انتخابات میں ایک بڑی تحریک چترال میں طبقاتی تفریق پید اکرنے کی کوشش میں کوشش میں تحریک چلائی گئی مگروہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی ۔چترال میں60فیصدووٹ سیاسی وابستگی کی بنیادپرپول کئے جاتے ہیں۔
2018 کے عام انتخابات میں جہاں عوام کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہیں ووٹرز اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ کی درخواست کرنے والے سیاستدانوں سے فرمائشیں بھی پوری کرارہے ہیں۔مگرعوامی مسائل پرتوجہ بہت کم دیتے ہیں ۔
اس وقت چترال کے اہم ایشومواصلاتی نظام کابہتربنانااورشاہراہوں کے ذریعے چترال کارابطہ قائم کرنااور سی پیک کے ذریعہ چترال گلگت بلتستان شاہراہ کی تعمیرہے ۔عوام کے جائزمطالبات صرف زبانی کلامی حدتک محدودہیں اب تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔حالانکہ متذکر ہ مسائل چترالی عوام کے درینہ مطالبات ہیں اورعلاقے کی ترقی بھی ان اہم منصوبوں پرہے۔سننے میں آیاہے کہ ان منصوبوں سے متعلق کاغذی کارروائی ہوچکی ہے مگرعملی کام اب تک نظرنہیں آرہاہے۔