کالمز

دنیا سے کٹے ہوئے بدصوت گاوں کا آنکھوں دیکھا حال

تحریر : محمد طاہر رانا

الخدمت فاونڈیشن کی 2 رکنی ٹیم نے پاک اآرمی کے ساتھ متعلقہ علاقے کا دورہ کیا ، ریلیف آپریشن میں حصہ لیا،اور علاقے کا مکمل سروے بھی مکمل کر لیا ہے، یاد رہے کہ برست گاوں کا زمینی رابطہ دوسرے علاقوں سے کٹا ہوا ہے۔، اور یہاں امدادی ٹیموں ، میڈیا کے نمائندوں اور دیگر زمہ دار اداروں کے لئے بھی رسائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، سوائے ہیلی کاپٹر کے ان علاقوں تک رسائی ممکن نہیں۔

آنکھوں دیکھا حال

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے برست (جو کہ بد صوات کے نام سے زبان زد عام ہے) گلیشئیر نے تباہی پھیلا دی ہے ، گزشتہ 5 روز سے مسلسل برست نالے میں گلیشئیر کے پگلنے سے اونچے درجے کے سیلاب نے دریائے قرمبر نے جھیل کی شکل اختیار کی ہے ،جھیل بننے سے 50 گھر ایک پرائمری سکول اور کچھ دکانیں زیر آب آئیں ہیں، دوسری طرف جھیل کے بننے اور مسلسل گلیشئیر کے پگلنے کی وجہ سے برست گاوں سے ملحقہ گاوں گنج آباد ، دوارداس ، بورتھ ، شیری روئی ، مترم دان، بوق یازبین کے 600 گھرانوں کا زمینی رابطہ مکمل طور پر بند ہو گیا ہے، واحد زمینی رابطہ منقطع ہونے کی وجہ علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں شدید مشکلات اور اشیائے خوردنی کا فقدان ہے ، جبکہ موسمیاتی تبدیلی وجہ سے مختلف بیماریوں نے علاقے کے عوام کو اپنے لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے، برست گاوں میں مواصلاتی نظام متاثر ہے جبکہ یہاں کے مکین بجلی سے بھی محروم ہیں۔

گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے یوں تو ان علاقہ جات سے 4 کلو میٹر دور بلہنز گاوں میں خیمہ بستی قائم کی ہے اور وہاں تک راشن بھی پہنچایا ہے تاہم دنیا سے کٹے ہوئے ان علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے میں وہاں موجود ٹیم کو مشکلات درپیش ہیں۔ اب تک متاثرہ گاوں برست کے 30 گھرانوں کو خیمے اور راشن مہیا کیا گیا ہے ، لیکن اس صورت حال کی ایک دوسری تصویر بھی ہے ۔

?

برست نالے میں مسلسل گلیشئیر پگلنے کی وجہ سے جھیل کا بند مزید مصبوط ہوتا جا رہا ہے ، جبکہ 2 کلومیٹر تک کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، جسکی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک روڈ کی تعمیر ممکن نظر نہیں آتی ، اگر صورت حال اسی طرح برقرار رہتی ہے تو مستقبل قریب میں برست گاوں سمعیت ملحقہ علاقوں میں غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے، گلیشئیر کے مسلسل پگلنے کی وجہ سے ان علاقوں میں گلے کی ڈائریا کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، شدید بیماری کی صورت میں اللہ سے فریاد کے علاوہ کسی ہسپتال تک رسائی کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے ، یہاں کے لوگ سیلابی پانی پینے پر مجبور ہیں ، پینے کے صاف پانی کا واحد چشمہ بھی سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوگیا ہے ، جسکی وجہ سے لوگ سیلابی پانی استعمال کر رہے ہیں ،اور اس پانی کے استعمال سے بھی صورتحال گھمبیر ہو سکتی ہے، نالے سے منسلک آبادیاں محفوظ نہیں ہیں ، دونوں طرف زمین میں بڑے بڑے شگاف پڑ گئے ہیں ، اور بہت سارے گھروں میں کریک پڑ گئے ہیں جو کسی بھی وقت نالے میں گر سکتے ہیں ، جھیل کی دوسری طرف ایک گاوں ایسا بھی ہے جہاں ابھی تک کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچی یہ بھی مکمل طور پر کٹا ہوا گاوں ہے جہاں 35 گھرانے پھنسے ہوئے ہیں۔ برست گلیشئیر کا کٹاو مسلسل جاری ہے لوگ رات بھر جاگ کر گزارتے ہیں ، ہماری موجودگی میں کئی بارگلیشئیر گرنے سے ایک خوفناک آواز کے ساتھ زمین بھی ہلی ، ان علاقوں کے عوام بیرونی امداد اور داد رسی سے محرومی اور بے بسی کی وجہ سے شدید ذہنی کوفت اور پریشانی کا شکار ہیں، جن خاندانوں کے گھر بہہ گئے وہ بھی اپنے رشتہ داروں پر بوجھ ہیں ، کیونکہ انکا سب کچھ پانی کی تہہ میں رہ گیا ہے ، برست گاوں میں سروے کے دوران متاثرین اور علاقے کے عوام کا کہنا تھا ہمیں فوری طور پر محفوظ مقام منتقل کیا جائے ، میڈیا میں سب اچھا ہے کی رپورٹ چلتی ہے جبکہ ہماری روز مرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ، حکومت اور انتظامیہ کا کوئی نمائندہ ہماری داد رسی کیلئے نہیں پہنچا ہے ، ہم پاک آرمی ، الخدمت اور فوکس کے مشکور ہیں کہ وہ ان مشکل حالات کے باوجود ہماری داد رسی کرنے پہنچے ۔ انہوں نے مذید کہا کہ ہماری آمدورفت کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے ، جو راشن موجود ہے وہ بھی صرف 15 دنوں کا ہے ، اسکے بعد کیا ہوگا ہمیں خود معلوم نہیں ۔

برست گاوں کے واحد پرائمری سکول کے زیر آب آنے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔

اس علاقے سے نکلنے کے دو ہی راستے ہمیں نظر آئے ایک تو بذریعہ ہیلی کاپٹر یہاں پہنچا جا سکتا ہے ، دوسرا راستہ برست نالے کو پیدل کراس کرنا ہے اور قریبی گاوں بلہنز تک پہنچنے کیلئے 2 گھنٹوں تک پیدل چلنا ہے ، دوسرا راستہ اس لئے بھی بہت خطرناک ہے کہ اس نالے میں ہر وقت سیلابی ریلہ گزرتا ہے ، جو گلیشئیر ہم دیکھ کر آ رہے ہیں ایسا نہیں لگتا کہ وہ کم یا بند ہو جائے، سیلابی ریلوں کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے ، کئی افراد اس نالے کو کراس کرتے ہوئے بال بال بچے ہیں ، پہلے روز جب اس نالے میں اونچے درجے کا سیلاب آیا اس دن معروف سماجی کارکن ظفر شادم خیل نے 20 رضاکاروں اور محکمہ صحت کی 6 رکنی ٹیم کے ساتھ اپنی جان پر کھیل کر اس نالے کو کراس کیا تھا ، بقول اسکے ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم اس نالے کو کراس کر سکینگے ، کیونکہ سیلابی ریلے جاری تھے۔

4 دنوں تک امداد کیلئے متاثرہ گاوں پہنچنے والی یہ ٹیم بھی اس گاوں میں محصور رہی، محکمہ صحت کے 3 افراد بذریعہ ہیلی وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے ، ان میں سے 2 افراد نے واپسی بھی اسی خطرناک نالے کو کراس کر کے کی ، تاہم اس ٹیم کا ایک ممبر وہاں پھنسا ہوا تھا، جب ہماری اس سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ میں یہاں سے نکلنا چاہتا ہوں لیکن نالے کو کراس کرنا رسک ہے، واقع بھی جو ہم دیکھ رہے اور بار بار نالے میں گلیشئر گر رہا تھا ایسی صورت میں کوئی سنکی ہی اسے کراس کر سکتا ، ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف صبح 5 سے 6 بجے تک اس نالے کے پانی میں کمی آتی ہے اسی موقع پر بھاگتے ہوئے اسے کراس کیا جاسکتا ہے ، ہمیں بھی یہ تجربہ کرنا تھا، ہم ہیلی کا نتظار نہیں کر سکتے تھے، اس لئے اگلی صبح 7 بجے ہم بھی نالے کو کراس کرنے نکل پڑے میرے ساتھ الخدمت کے ساتھی عبدالکریم ، ظفر شادم خیل اور کچھ رضاکار بھی ساتھ تھے ، جیسے ہی ہم نالے میں اترے ایک انجانے خوف نے ہمیں گھیرے میں لے لیا، اور ہماری رفتار بڑھ گئی ، ہانپے کانپتے ہم نے بڑے بڑے پھسلن پتھروں اور گلیشئیر کے ٹکڑوں کو پھلانگتے ہوئے نالے کو تو عبور کر لیا لیکن ایک اور امتحان ہمارے سامنے تھا، ہمیں سیلابی ریلوں کے اثرات سے بچنے کیلئے مذید 40 منٹ تک بغیر رکے پتھروں میں سے گزرنا تھا، اللہ ہمت دینے والا ہے ہم نے یہ سفر بھی عبور کیا اور ایک جگہ کچھ دیر کیلئے رک گئے ، قریبی کیمپ ( بلہنز گاوں ) تک پہنچنے کیلئے ہمیں مذید 2 کلومیٹر کا سفر پیدل کرنا تھا ، ہم نے اس دوران کچھ خواتین اور بچوں کو بھی دیکھا جو یہ رسک اٹھانے والے تھے ، ابھی ہم بلہنز گاوں نہیں پہنچے تھے کہ برست نالے میں ایک اور اونچے درجے کا سیلاب آگیا، اللہ سب کو اپنی حفظ و آمان میں رکھے۔ ان واقعات کا ذکر یہاں اس لئے ضروری تھا کہ برست گاوں کے افراد روز یہ رسک لینے پر مجبور ہیں ، دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہیکہ حکومت گلگت بلتستان اس تمام صورتحال کو سنجیدہ لے ، فلاحی ادارے یہاں امدادی سرگرمیاں کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں بھی رسائی ممکن نہیں ہے ، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل قریب میں ہمیں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا جھنیں ہم پورا نہیں کر سکینگے اور کئی انسانی جانوں کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے ۔ ان علاقوں میں امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے روڑ بنانا ممکن نہ ہو تو کوئی دوسرا راستہ اپنانا ہوگا ، گراڈی اس لئے بھی غیر محفوظ ہے کہ نالے کے دونوں طرف زمین میں بڑے بڑے شگاف پڑ گئے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button