25 جولائی کا سورج اور چند حقائق
25 جولائی 2018 کو ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ الیکشن ملکی تاریخ کا اہم ترین سنگ میل ہوگا۔ تمام قرین و قیاس اور اندازے یہی بتا رہے ہیں کہ اس الیکشن میں کوئی بھی جماعت واحد اکثریتی پوزیشن حاصل نہیں کر سکتی ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن بظاہر زیر عتاب نظر آ رہی ہے کیونکہ اس جماعت کی قیادت آجکل جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہے جبکہ دوسری جانب یہ تاثر بھی عام ہے کہ گرونڈ میں صرف ایک لاڈلے کو آزادانہ کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اپنی پوزیشن ماضی سے بہت زیادہ بہتر بنا چکے ہیں جس وجہ سے ہر دور میں موسم کے ساتھ بدلنے والے امیدواروں کی ساری نظریں عمران خان کی اوپر ہیں ان تمام صورت حال کے باوجود چند حقائق ایسے بھی جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک میں حکومتیں بنانے اور ختم کرنے میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی دلچسپی ہر دور میں رہی ہے ماضی کی ترجیحات کچھ مختلف تھی مگر اب عالمی طاقتیں پاکستان میں جمہوری کلچر کی حامی نہیں ہیں اور نہ پاکستان تعمیر ترقی کے میدان میں آگے دیکھنا چاہتی ہیں نواز شریف کا گزشتہ دور حکومت عالمی کھلاڑیوں کی منشی کا برعکس رہا ہے ۔ نوازشریف کی ترجیحات میں سڑکیں’موٹرویز ‘اور سی پیک جیسے منصوبوں کا آغاز ہے جو عالمی طاقتوں کو کھٹکتا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے ریاست کے ذمہ دار اداروں نے کچھ سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کر دیا جائے ان اداروں کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ملک کو جتنا نقصان کرپشن نے پہنچائی ہے اتنا نقصان ہندوستان نے بھی نہیں دیا ہے کیونکہ ملک آئے روز بیرونی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑتا چلا جا رہا ہے اسلئے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے اوپر سے ہاتھ ڈالنا ضروری تھا اس لئے پنجاب سے تعلق رکھنے والی لیڈرشپ کو احتساب کے عمل سے گزارنا ناگذیر سمجھا گیا کیونکہ اگر اس طرح کا احتساب چھوٹے صوبوں سے شروع ہوجاتا تو صوبائیت اور لسانیت جیسی خطرناک لہر پھیل سکتی تھی جو ملک کیلئے بہت نقصان کا باعث تھی۔ نوازشریف جیسی مقبول’توانا اور بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والی قیادت پر اس نوعیت کے احتساب کے بعد اب چھوٹے صوبوں کی سیاسی قیادت و بیوروکریٹس اور سرکاری افسران پر ہاتھ ڈالنا بچوں کا کھیل ہے ذمہ دار اداروں کا یہ عمل سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کی مصداق ہے جو ہر اک کی سمجھ سے بالا ہے ۔ قوی امکان ہے کہ اس وقت بھی مسلم لیگ ن اور ادارے ایک ہی صفحے پر ہیں مگر بیرونی تاثر اس سے یکسر مختلف ہے اب تو عالمی میڈیا بھی اس بات پر مصر ہے کہ نوازشریف کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں اندرون خانہ مسلم لیگ ن کو ایک مرتبہ پھر اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے اور 25 جولائی کی شام مسلم لیگ ن ایک مرتبہ پھر سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئیگی لیکن اس بار 2013 سے کم سیٹیں جیت جائیگی۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن پہلے سے بہتر کرے گی اور اس بار ٹوٹل 50 سے 60 قومی اسمبلی کی نشستیں لینے میں کامیاب ہوگی جبکہ مسلم لیگ کل 75 سے 80 سیٹوں پر کامیاب ہوگی تیسرے نمبر کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہوگی اور متحدہ مجلس عمل چوتھے نمبر کی پوزیشن لینے میں کامیاب ہوگی۔ بلوچستان میں عوامی پارٹی کی حکومت بنے گی’ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف صوبائی حکومت بھی نہیں بنا سکے گی اور وہاں ایم ایم اے کچھ جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائیگی سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بن جائے گی۔ قومی اسمبلی میں سب بڑی جماعت مسلم لیگ ن بن کر ابھرنے کے بعد بھی اگر تحریک انصاف دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی ایک تو اتحادی حکومت کی خرابیوں کا نزلہ عمران خان پر گرے گا اور دوسری طرف چاروں صوبوں میں دیگر جماعتوں کی قائم حکومتوں سے مرکز کمزور ہوگا۔ختم شد