ماں کا دودھ، بچے کا حق اور بہتر صحت کا ضامن
تحریر: اسرارالدین اسرار
ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہر سال دنیا بھر میں یکم سے سات اگست کو ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ویک کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس کا آغاز ورلڈ الائنس فار بریسٹ فیڈنگ ایکشن نے ۱۹۹۲ ء میں کیا تھا۔ اس کے بعد ہر سال یہ ہفتہ منا یا جاتا ہے ۔ اس ایک ہفتے میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کے تعلیمی اداروں، صحت کے مراکز اور کمیونٹی لیول پر پروگرامات ترتیب دئیے جاتے ہیں جبکہ میڈیا اور دیگر ذرائع سے بچے کے لئے ماں کے دودھ کی اہمیت کے حوالے سے شعوراور آگاہی دی جاتی ہے ۔پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح اس دفعہ پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے مختلف ادارے ماں کے دودھ کی اہمیت پر آگاہی پروگرامز منعقد کررہے ہیں ۔
ماں کے دودھ میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں جو بچے کی صحت ، جسمانی نشونما ء اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں جواجزاء ہیں ان میں پانی، توانائی ، پروٹین، فیٹ،کاربوہائی ڈیریٹ، سوڈیم، کیلشیم، فاسفوریس، آئرن، وٹامن اے، وٹامن سی اور وٹامن ڈی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین صحت بچے کو پیدا ہونے سے چھ مہنے تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانا لازمی قرار دیتے ہیں۔ چھ مہنے کے بعد بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ کوئی بھی نرم غذا دی جاسکتی ہے ۔ تاہم ماں کا دودھ دو سے ڈھائی سال تک پلانا بچے کے صحت کے لئے انتہائی مفید سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ماں کی مصروفیات، خرابی صحت، موت ، نقل مکانی، کسی حادثہ، خوارک کی کمی یا کسی اور وجہ سے بچہ ان کے دودھ سے محروم ہو جائے تو اس سے بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ قوت مدافعت بھی کم ہوجاتی ہے جس سے بچے کو کوئی بھی بیماری جلدی گھیر سکتی ہے۔ ما ہرین کا کہنا ہے کہ ماں کے دودھ سے بچے کو مختلف انفیکشنز، سانس کی تکالیف اور آئی کیو لیول بڑھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ماں کا دودھ نہ صرف بچے کے لئے مفید ہے بلکہ ماں کی اپنی صحت کے لئے بھی کار آمد ہے ۔بچے کو دودھ پلانے کے فوائد میں بچے کا صحت مند ہونا، بیماریوں سے حفاظت، ہڑیوں کی مضبوطی، پیدائش کے بعد موت کے امکانات میں کمی، ماں کے غیر ضروری وزن میں کمی، زچگی کے بعد پیدا ہونے والی پیجیدگیوں کا بروقت رفع ہوجانا، چھاتی کے کینسر کے امکانات کا کم ہونا، ممتا کی قوت میں اضافہ، بعض اوقات دودھ کی مقدار کم ہونے کے باوجود بچے کی خوراک کی ضرورت کا پورا ہونا، عموما خواتین کو درپیش صحت کی شکایات میں کمی واقعہ ہونا، خاندانی منصوبہ بندی میں مددگار ، بچے کے لئے سب سے آسان طریقہ خو راک اوربازار کے دودھ یا خوراک سے متعلق غیر ضروری اخراجات کی بچت شامل ہے ۔ اس کے علاوہ بچوں کو دودھ دینے والی ایک ہی گھر یا محلے میں رہنے والی یا ایک جگہ کام کرنے والی ماؤں کے آپس میں اور اپنے بچوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات استوار ہونے میں مدد ملتی ہے ۔
ماں کے دودھ کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ ایک وہ دودھ ہے جو بچے کی پیدائش کے ابتدائی سات دنوں کا ہوتا ہے۔ اس دودھ کو کلوسٹرم کہا جاتا ہے ۔ اس میں بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے ۔یہ دودھ بچے کی ابتدائی نشونما ء کے لئے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ اس لئے ماہرین بچے کو پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ دینے اور سات دنوں تک زیادہ سے زیادہ ماں کا دودھ پلانے کی ہدایات کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ پیدائش کے چند دنوں کے بعد ماں کا دودھ دینا شروع کریں گے جو کہ غلط ہے۔ اس سے بہت ہی اہم اور پروٹین سے بھر پور غذاء ضائع ہوجاتا ہے اور وہ دوبارہ بچے کو نصیب نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں آٹھ سے بیس دنوں کا دودھ ہوتا ہے۔ اس کو ٹرانزیشنل دودھ کہا جاتا ہے ۔ یہ دودھ بھی انتہائی مفید اور کارآمد ہوتا ہے ۔ تیسر ے مرحلے میں میچور دودھ آتا ہے جو کہ بیس دنوں کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ اس دودھ میں بھی بے شمار ضروری اجزاء ہوتے ہیں جو بچے کی نشونما، جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں روایتی طور پر بچے کو دودھ پلانا اچھا سمجھا جاتا ہے مگر اس کے فوئد سے متعلق لوگوں کے پاس سائنسی علم نہیں ہوتا۔ اس لئے بعض دفعہ اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ آج کل کی خواتین اپنی مصروفیات اور خاص طور سے پڑھائی یا دفتروں میں کام کی وجہ سے بھی بچے کو مناسب وقت میں دودھ پلانے سے قاصر رہتی ہیں ۔ بعض دفعہ ماں کو مناسب خوراک نہ ملنے، کسی حادثہ، بیماری ، ذہنی دباؤ ، نقل مکانی یا زچگی کے دوران ماں کی موت کی وجہ سے بچہ ماں کے دودھ سے محروم ہوجاتا ہے۔
بیماری یا موت یا دیگر کسی حادثہ میں بچے کادودھ سے محروم ہوجانا قدرتی امر ہے ۔ ایسے میں تو ماں سے گلہ نہیں کیا جاسکتا مگر کوئی ماں کم علمی یا مصروفیات کی وجہ سے اگر بچے کودودھ دینے سے قاصر ہوجاتی ہے تو وہ بچہ اور ماں دونوں کی صحت کے لئے نقصاندہ ہے ۔ ہمارے ہاں خواتین کے چھاتی کے کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات اسی کا پیش خیمہ ہیں جبکہ بچوں کا قد، وزن اور صحت کے دیگر مسائل بھی اسی کہ وجہ سے پیش آتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے فورا بعد اموات کی کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ بروقت ماں کے دودھ کا نصیب نہ ہونا بھی ہے۔
بچے کو دودھ دینا صرف کوئی روایتی سرگرمی نہیں ہے بلکہ یہ بچے کا بنیادی حق ہے ۔ بچے کو ان کی ماں کے دودھ سے محروم رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس لئے بچہ اور ان کی ماں دونوں کے لئے مناسب ماحول کی فراہمی ضروری ہے۔ ماں کا مناسب خوراک، صحت، مناسب ماحول، حفاظت اورسردی گرمی سے بچاؤ کے لئے مناسب اقدامات کی صورت میں ہی بچہ کو دودھ نصیب ہوسکتا ہے۔ ماں اگر کسی دفتر، فیکٹری یا کسی اور جگہ کام کرتی ہے تو ان کو دن میں چار سے پانچ مرتبہ بچے کو دودھ دینے کے لئے وقت دیا جانا چاہئے اور وہ وقت اس کے کام کے وقت میں شمار کیا جانا چاہئے تاکہ وہ بچہ دودھ سے محروم نہ ہوسکے۔ اس ضمن میں دنیا کے کئی ممالک میں قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کم علمی کی وجہ سے اس پر تو جہ نہیں دی جاتی۔ بلکہ کام کی جگہ پر خاتون بچے کو دودھ پلانے کے لئے وقت مانگے تو اس کو ذہنی اذیت سے دو چار کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی منشورسمیت دیگر دستاویزات اور ہمارے ملک کے آئین میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی فرد چاہے وہ بچہ ہو یا بچی ہو ، مرد ہو یا خاتو ن ہو ان کو زندہ رہنے کے لئے مناسب خواراک فراہم کیا جانا ان کا حق ہے۔ بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن کاآرٹیکل ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۱۸ اور ۲۷ خاص طور سے حکومتوں سے بچوں کی نشونماء اور مناسب خوراک اور اس ضمن میں والدین کی مناسب تربیت اور مدد کے لئے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں محکمہ صحت اور آغاخان ہیلتھ اس ضمن میں کچھ آگاہی دیتے رہے ہیں مگر وہ ناکافی ہے۔ اس ضمن میں محکمہ ہیلتھ کو حکومت کی مدد سے خاص اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ نئے پیدا ہونے والے بچے دودھ کے حق سے محروم نہ ہوسکیں۔ اس کے لئے قانون سازی کرنے کے علاوہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگوں کو اس بات کا ادارک ہو کہ بچوں کے لئے ماووں کا دودھ کتنا اہم ہے ۔ اس ضمن میں ماووں کو گھروں، دفاتر، کام کی دیگر جگہوں، قدرتی آفات کی وجہ سے بے گھر ہونے والی ماووں کو ان کے کیمپوں میں مناسب خوراک اور ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلا سکیں۔ اسی طرح ہم ایک صحت مند نسل پیدا کرسکتے ہیں تاکہ وہ ملک اور قوم کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکے۔