کالمز

یتیم بچیاں اور ان کے مسائل

تحریر: شہناز حرمت

پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالا خطہ ہے ۔اس علاقے میں بسنے والے اکثر لوگ مزدوری کر کے اپنی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہے۔گلگت بلتستان میں شرح خواندگی دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے ۔غربت کے باوجود یہاں کے لوگ محنت مزدوری کر کے بھی اپنے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ اس علاقے میں کچھ ایسے بھی بچیاں ہے جو کہ والدین کی شفقت اور سائے سے محروم ہے جس کی وجہ سے وہ بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔ایسے بہت سارے یتیم بچیاں موجود ہے جو کہ سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہے ۔سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر لڑکوں کیلئے یتیم خانے موجود ہے لیکن لڑکوں کیلئے حکومتی و غیر حکومتی سطح پر کوئی موثر یتیم خانہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے یتیم بچیاں بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیم جیسی نعمت سے بھی محروم ہے ۔گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں کئی یتیم بچیاں موجود ہیں جو کہ چاہتے ہوئے تعلیم سے محروم ہے اور ساتھ ساتھ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔یہی ذہنی پریشانیاں انہیں خود کشی یا اور غلط کاموں کی طرف دھکیلنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ گلگت بلتستان میں بہت کم ایسے ادارے ہیں جو کہ ایسے مستحق بچیوں کی دیکھ بال اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق تعلیم کے سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کو یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے لیکن صد افسوس ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہے کہ اپنے ذات کے علاوہ کسی کا نہیں سوچتے ۔ گلگت بلتستان میں کئی مخیر حضرات موجود ہے جو اگر اپنی ایک دن کی کمائی بھی ان غریب بچیوں کے تعلیم کیلئے مقرر کریں تو شائد اس ایک دن کا معاوضہ ان بچیوں کی زندگی سنوار دیں ۔

’’ اپنے لئے تو جیتے ہیں سب اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘‘

گلگت میں حکومتی سطح پر یتیم بچوں کیلئے کوئی معیاری یتیم خانہ نہیں جہاں پر یتیموں کی پرورش اور ان کی تعلیم کا بندوبست ہو سکے ۔یہاں پر ایک پرائیوٹ یتیم خانہ ہے جہاں پر جگہ محدود سائل کی وجہ سے بچیوں کا داخلہ ممکن نہیں ۔حکومت کی طرف سے ایک سویٹ سوم کے نام سے یتیم خانہ ہے وہاں پر صر ف لڑکوں کو داخلہ دیا جا تا ہے لیکن بچیوں کیلئے کوئی انتظام نہیں۔غیر مناسب انتظامات کی وجہ سے یتیم بچیاں انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان میں زیاد ہ لڑکیوں کی کمی عمری میں شادی کی جاتی ہے جو کہ ان کیلئے انتہائی خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔کم عمری میں زبردستی شادیوں کے باعث ان کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہو جاتے ہیں ایسے کئی واقعات رونما بھی ہو چکے ہیں ۔نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ’’ یتیموں کی کفالت کرنا عبادت ہیں ‘‘ یقیناًاسلام میں یتیموں کی مدد کو نیک اعمال میں شمال کیا جاتا ہے ۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب پر فرض ہے کہ ہم یتیموں کے حقوق کا خاص رکھیں ۔نبی کریم ؐ کا ۔حضور ؐ نے فرمایا’’ یتیموں کی کفالت کرنے والا قیادت کے دن میرے ساتھ ایسے ہونگے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں‘‘ مجھے اُمید ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والے ایک مرتبہ ضرورت ان یتیم بچیوں کے حوالے سوچنے پر مجبور ہونگے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرینگے اور ارباب اختیار کوبھی ضرور ان یتیم بچوں کے حوالے سوچنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے جتنے بھی یتیم بچے ہیں پر وردگار عالم ان کے مشکلات میں کمی واقع کرے اور ہم سب کو یتیموں کا حق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔پاکستان زندہ باد

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button