معرکہ تعلیم میں لشکر یاسین
گُل نایاب شاہ
گلگت بلتستان کے شمال میں واقع وادی یاسین جہاں قدرت کے حسین اور دلکش نظاروں سے بھرپور ہیں، وہی اسی تاریخی حثیت سے بھی منفرد مقام حاصل ہے۔ وادی یاسین کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جاٰئے تو مختلف جنگوں کی ایک دھندلی تصویر ہمارے نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہے۔ ماضی میں اس خطے اور یہاں کے سپوتوں نے صرف طاقت کے دم پر اکھاڑ بچھاڑ کے ہی تجربات کیے اور دیکھے ہیں۔ اس بات کی ایک زندہ دلیل راجہ گوہر امان بھی ہے جن کا تزکرہ کیے بغیر گلگت بلتستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ جس گھر میں علم و حکمت کی باتیں ہو وہاں فلاسفرز جنم لیتے ہیں، جہاں ادب، شعروسخن کی محفل سجتی ہوں وہاں ادیب جنم لیتے ہیں ٹھیک اسی طرح یاسین کے جنگی کلچر کا نتیجہ یہ ہوا کہ نسل در نسل یاسین جنگجو قوم کی سرزمین بنتی گئی. اس سلسلے کی ضمانت اج کے دور میں بھی پاکستان آرمی میں موجود یاسین کے جوان ہے، جن کی بہادری کا اطراف بارہا ہوچکا ہے اور یاسین کے سپوت لالک جان شہید کو نشان حیدر سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
یاسین میں تعلیم و ادب کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں رہی جس کی وجہ سے یاسین کی زرخیز زمین علم و ادب میں اپنا لوہا منوا نہیں سکی۔ ماضی قریب کی بات ہے کہ جب خط لکھنا یا پڑھنا ہوتا تھا تو میلوں سفر کر کے کسی پڑے لکھے تک رسائی حاصل ہوتی تھی۔ اور خط لکھنے یا پڑھنے والا بھی اپنی فہم کے حساب سے کام لیتا تھا جس کی وجہ سے عموماً پیغام اصلی حالت میں پہنچ بھی نہیں پاتا تھا۔ یاسین کے سپوتوں کے رجحانات تعلیم سےالگ تھے، کھیل کود، شکار وغیرہ محبوب مشغلے شمار ہوتے تھے۔
اس سارے منظرنا مے میں تبدیلی تب آئی جب گورنمنٹ ہایی اسکول طاوس کا قیام عمل میں ایا۔ اس ہائی اسکول نے اندھیرے میں جگنو کا کام دیا۔ اس سے علم کے شعاییں پھوٹنے لگے جو آج بھی مختلف شعبوں میں اپنے نام کا لوہا منوا رہے ہیں۔
لیکن اس محروم اور بالکل مختلف سمت میں چلنی والی وادی کی تقدیر بدلنے کے لیے ایک اسکول کا ہونا کافی نہیں تھا، خوش قسمتی سے آغاخان ایجوکیشن سروس کے زیر انتظام ڑایئمنڈ جوبلی اسکولز کا قیام عمل میں آیا۔ ان اسکولوں نے انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ سائنس اور دیگر شعبوں میں بھی خوب کام کر دکھایا اور یوں ایک جنگ سے محبت رکھنے والا خطہ راہ علم کی جانب گامزن ہوگیا۔
اس ارتقائی عمل کے دوران یاسین متعد بار سازشوں کی زد میں بھی رہا مگر اس خطہ کے لوگ سادہ اور جذباتی ہونے کے باوجود خلوص کے پیکر بھی ہے، جس کی وجہ سے کوئی سازش یہاں زیادہ دیر تک سانس نہیں لے سکی۔
ہم اگر اس دور کی بات کریں تو حالیہ تین چار سالوں میں یاسین کے نوجوان عروج کی بلندیوں پہ نظر آتے ہیں۔ آج یاسین کے طلبہ قومی سے لے کر بین الاقوامی یونیورسٹیز تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ اگر غور کریں تو یہاں کے نوجوان اپنی جنگی روایت کو برقرار رکھتے ہویے بھرپور تیاری کے ساتھ معرکہ عکم میں اتر چکے ہیں۔ ادب شناسی کا بھی لہر چل پڑا ہے اور شعور بھی ہر کم فہم کے در پہ دستک دے رہا ہے۔ اب یہ حکومت اور لوکل انتظامییہ اور دیگر حکام کے زمے ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ یہ لشکر حصول علم کی جنگ میں مزید کامیابیاں سمیٹ لیں اور گلگت بلتستان و پاکستان کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ اور نوجوانوں کو بھی محتاط ہوکر قدم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی محنت اور لگن کسی سازش کی نظر نہ ہو۔
(تفسیلی رپورٹ جلد قاریین کی خدمت میں پیش ہوگی)