ہماری ثقافت اور صوبائی وزیر سیاحت کا کردار
تحریر:دردانہ شیر
کسی بھی علاقے کی پہچان اس کی ثقافت سے ہوتی ہے اور جو قومیں اپنی ثقافت کو بھو ل جاتی ہیں ایسی قوموں کا نام ونشان بھی دنیا سے مٹ جاتا ہے غذر کی بھی ایک ثقافت ہے اور علاقے کے کلچر کو زندہ رکھنے کے لئے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کر نا ہوگا اور پورے ملک میں علاقے کے کلچر کی حفاظت کے لئے ایک محکمہ بھی موجود ہے جس کی نہ صرف زمہ داری علاقے کی ثقافت محفوظ کر نا ہے بلکہ علاقے کے کلچر کے فروغ کے لئے اقدامات بھی اٹھانے ہیں اور گلگت بلتستان میں بھی اس طرح کا ایک محکمہ موجود ہے جو علاقے کے کلچر کی حفاطت کے حوالے سے اس کی کارکردگی دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ محکمہ خطے کی ثقافت کی حفاظت کے لئے وجود بھی نہیں لائی گئی بلکہ محکمہ کے زمہ داران صرف تنخواہوں کی حد تک تعینات ہیں اس حوالے سے آج میں گلگت بلتستان کا ذکر نہیں کرونگا صرف ضلع غذر میں ہی اگر ٹوررزم کی کارکردگی دیکھا جائے تویہ محکمہ صرف اور صرف سرکار کے اوپر ایک بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ محکمہ ٹورزام کا صوبائی وزیرکا تعلق بھی غذر سے ہے مگر موصوف نے بھی یہاں پر موجود قیمتی ہمارا ورثہ کو بچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس وقت علاقے میں موجود ہمارے قیمتی اثاثہ جات تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں پچھلے سال یکم نومبر کو ہمارے اس صوبائی وزیر نے گلگت سٹی پارک میں منعقد جشن آزادی گلگت بلتستان کی تقریب میں نہ صرف سٹی پارک میں شہدا کے نام ٹاور کی تعمیراور گیلری بنانے کا اعلان کیا تھابلکہ غذر کی حدود بیارچی کے مقام پر بھی شہدا کی یاد گار تعمیر کرانے کی نوید بھی سنائی تھی اور اتنی جذباتی تقریر کی تھی کہ عوام وزیر موصوف کے اعلان پر ایک منٹ تک تالیاں بجاتے رہے اور وزیر سیاحت نے فوری طور پر ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان بھی کیا تھا مگر وہ دن ہے آج کا دن ان کا یہ اعلان صرف اعلان ہی ثابت ہوگیا نہ تو غذر کی حدود میں شہدا کا یاد گار بنا نہ گاہکوچ سٹی پارک میں اضافی ٹاور اور گیلری کی تعمیر ہوئی بلکہ اس سال 14اگست میں وزیر سیاحت پھر سے مہمان خصوصی تھے اور دو دن قبل اخبارات میں ان کے اعلانات پر عملدرامد نہ ہونے کی خبریں بھی شائع ہوئی تھی مگر موصوف کوکوئی احساس تک نہیں تھا سٹی پارک آیا اور پرچم کشائی کی اور واپس چلے گئے غذر شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین ہے اور یہاں کے بہادر سپوتوں نے ہر میدان میں اپنی بہادری کی لازوال دستانیں رقم کی ہے ایسے میں اگر غذر کی حدود میں اگر شہدا کا یاد گار تعمیر ہو تو یہ کوئی حکومت ہم پر احسان نہیں کر رہی ہے بلکہ یہ یہاں کے بہادر سپوتوں کی قربانیوں کا ایک چھوٹا سے تحفہ ہے مگر اس طرح کے اعلانات پر عمل نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت کی غذر کے ساتھ کتنی ہمدردی ہے دوسری طرف اگر دیکھا جائے توغذر کے مختلف مقامات پر صدیوں قبل انگریزوں کے دورکے تعمیر شدہ ہمارا قیمتی ورثہ کو آہستہ آہستہ مسمار کرنے کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا ہے کچھ عمارتیں اور فورٹ کو آغاخان کلچر بورڈنے بچانے کی کوشش کی ہے جن میں گاہکوچ فورٹ بھی شامل ہے اور صدیوں پرانے اس فورٹ کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں سیاح اس آثار قدیمہ کارخ کرتے ہیں اس کے علاوہ گوپس ،یاسین فورٹ اور مڈوری جیسے یاد گار آثار قدیمہ کو بچانا بھی وقت کی ضرورت ہے اور گوہر آمان جیسے بہادر سپوتوں کی مزار کی تعمیر اور احاطے کی چاردیواری بھی وقت کی ضرورت ہے چونکہ اس کے پیچھے ایک تاریخ پوشیدہ ہے جبکہ ہاکس کے مقام پر یاسین کو ملانے والا پل بھی صدیوں پرانا ہے اگر اس قیمتی اثاثہ کو بھی نہ بچایا گیا تو کسی وقت یہ پل بھی روتوں رات غائب ہوجائیگاجب کہ سینگل میں دوسو سال قبل انگریزوں کے دور میں بنایا گیا ڈسپنسر کوارٹر کو بھی آغاخان کلچر بورڈ نے اس کی ازسرنو مرمت کر کے اس کو محفوظ کیا ہے مگر کئی ایسی یادگار عمارتیں جن کو انگریز دور میں تعمیر کیا گیا تھا اب ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے سلسلہ شروع کردیا گیاہے انگریز دور میں تعمیر کیا گیا پنگل ریسٹ ہاؤس کو بھی آج سے دس سال قبل محکمہ تعمیرات عامہ کے بعض آفسران نے نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر اسکو محفوظ کرنے کی بجائے مسمار کردیا جس کی خبریں کئی عرصے تک اخبارات کی ذینت بنی مگر کسی بھی حکومت کے زمہ دار نے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی اس کے علاوہ ایک سال قبل صدیوں پرانی سینگل میں انگریزوں کا بنایا ہوا ہسپتال جس کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے اس عمار ت کو بھی مرمت کرنے کی بجائے پوری عمارت کو ہی مسمار کردیا گیاہے ایسی کونسی مجبوری سامنے آئی تھی کہ اس نایاب اور قدیم عمارت کو مسمار کرنا پڑا اسکا جواب تو محکمہ صحت اور محکمہ تعمیرات عامہ کے زمہ دار ہی دے سکتے ہیں کہ انھوں نے کیوں اس قدیم عمارت کو مسمار کرنے کی اجازت دیدی اس اہم عمار ت کوگرانے پر اہل علاقہ نے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے اس طرح کی عمارتوں کی مرمت کرکے اس کو اصل حالت میں رکھا جاتا تو یہ اہم مقامات سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتے تھے نہ جانے وہ کونسے حکومتی اہلکار ہیں جو ان اہم مقامات کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں لگے ہیں اگر محکمہ ٹورزام اور دیگر حکومتی ادارے جو کلچر کے فروغ کے لیے اپنا کر دار ادا کرسکتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس طر ح کے نایاب عمارتوں کو محفوظ بنائے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو علاقے کی کلچر کے بارے میں کچھ پتہ چل سکے اگر حکومت نے اس طرح کی خاموشی اختیار کر لی توبہت جلد یہ نایاب عمارتیں ملبے کی ڈھیرمیں تبدیل ہوگی ضرورت اس بات کی ہے کہ غذر میں موجود اہم مقامات جو صدیوں قبل تعمیر ہوئے ہیں ان کی ازسر نو مرمت کی ضرورت ہے اور ان اہم مقامات کی پوری ایک تاریخ ہے جن میں گوپس فورٹ،ہاکس میں موجود یاسین کو ملانا والا پرانا پل ،مدڈوری قلعہ اور دیگر ایسے مقامات ہیں جن کی تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اگر حکومت نے اس طرح خاموشی اختیار کی تو ہمارا تاریخی ورثہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیگااس حوالے سے غذر میں ان پرانے اور قدیم مقامات کو ان کی اصل حالت میں رکھنے اور ان کی تحفظ کے لئے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کر نا ہوگا چونکہ کسی بھی قوم کی اگرثقافت مٹ گئی تو اس قوم کا زوال شروع ہوجاتاہے راقم نے پچھلے سال اپنے چین کے دورے کے دوران دیکھا کہ چینی کی حکومت اپنے آثار قدیمہ کا تحفظ کس انداز میں کیاہے صدیوں قبل کاشغر کی آبادی ایک ہی جگہ ہوا کرتی تھی اور اس جگہ میں ہزاروں گھرانے آباد تھے اس کے بعد وہاں کے مکینوں نے اس آبادی کو چھوڑنا شروع کر دیا تو چین کی حکومت نے پوری آبادی کو محفوظ کرنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر دئیے ہیں آج کاشغر کی اس پرانی آبادی کے ان قدیم مکانات کی مرمت کرکے اس کو ایسی حال میں رکھا ہے جو صدیوں پہلے تھے اور سالانہ لاکھوں سیاح اس قدیم آبادی کی فن تعمیرکو دیکھتے ہیں اور حکومت کو اس سے سالانہ کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے دوسری طرف ہم ہیں کہ گنتی کے چند آثار قدیمہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے لگے ہوئے مگر ہمارے حکمرانوں کو اس حوالے سے پتہ ہونے کے باوجود خاموش ہیں اگر ان قدیم عمارتوں کو نہ بچایا گیا تو غذر کا یہ قیمتی آثاثہ بہت جلد مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہونگے اس کے بعد ہمارے پاس ان نایاب عمارتوں کی صرف باتیں کہانیوں کی حد تک رہ جائیگی اس حوالے سے حکام سے اپیل ہے کہ وہ یہاں کے قدیم عمارتوں فورٹ اور پل کو بچانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ علاقے کی اس پہچان کو بچایا جاسکے۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرئے تو یاسین ،گوپس فورٹ کو اس کی اصل شکل میں لایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ مڈوری کے مقام کی بھی ایک تاریخ ہے اس کو بچانا بھی بہت ضروری ہے تاکہ ہماری آنے والی نسل کو علاقے کی تاریخ کا پتہ چل سکے کہ ہمارے بزرگوں نے ان اہم مقامات کی تعمیر میں کتنی محنت کی ہوگی اور ایک طرف ہم ہیں کہ ان قیمتی اثاثوں کو بچانے کی بجائے ان کو مسمار کرنے پر لگے ہوئی ہیں اگر ہم نے اپنے ان قمیتی آثاثہ جات کو نہ بچایا تو ہماری تاریخ بھی مٹ جائیگی جس کے بعد ہمیں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ملے گا۔