صدائے درویش:جناب عمران خان اور سیاست کے نئے تقاضے
اے بشیر خان
پاکستان تحریک انصاف کے چئیر مین جناب عمران خان بائیس برس کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد بالآخر ملک کے بائیسویں وزیر اعظم بن گئے۔ جمعہ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے رائے شماری میں انہیں اپنے حریف مسلم لیگ نون کے صدر جناب شہباز شریف کے چھیانوے ووٹوں کے مقابلے میں ایک سو چھتر ارکان کی حمایت ملی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ جماعت اسلامی نے اپنا راستہ ٖفضل الرحمان صاحب سے الگ کر لیا ہے ۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود شہباز شریف صاحب کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ زرداری صاحب جانتے تھے کہ اُن کے شہباز شریف صاحب کو ووٹ دینے کے باوجود عمران خان صاحب نے وزیر اعظم بن جانا ہے ۔ اس لئے کیوں نہ شہباز شریف صاحب کو ووٹ نہ دے کے بالواسطہ طور پر انہوں نے عمران خان صاحب کو رام کرنے کی اپنی سی کوشش کی جائے۔ زرداری صاحب نے زندگی بھرتوڑ جوڈ کیا ہے۔ انہیں اچھی طرح سے پتہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں اور اُن کی ہمشیرہ صاحبہ کو منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے وہ اپنی جوڑ توڑ کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ سودے بازی کرنے اور قانون سازی میں معاونت کے بدلے ان مقدمات سے برئیت کا پروانہ حاصل کرنا چاہیں گے جن سے بصورت دیگر جان چھڑانا ممکن نہیں۔ جناب عمران خان کو اس وقت ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔ انہیں ملک کے دیمک زدہ نظام کو پٹری پر ڈالنے کے لئے ایوانِ زیریں میں ہی نہیں بلکہ ایوان بالا میں بھی پیپلز پارٹی کی حمایت درکار ہوگی۔ظاہر ہے کہ اُنہیں یہ حمایت مسلم لیگ ن سے تو ملنے سے رہی اس لئے لا محالہ انہیں پیپلز پارٹی سے ہی سودے بازی کرنی پڑے گی۔ عمران خان صاحب کے مزاج سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اس قسم کی بلیک میلنگ میں آنے والے انسان نہیں ہیں۔ اس لئے ان کی ترجیح یہ ہوگی کی کرپشن میں ملوث بآثر شخصیات کی لگامیں کس کے رکھیں تاکہ انہیں سرکش گھوڑوں کی طرح قابو میں رکھا جا سکے۔اس اعتبار سے چوہے اور بلی والا کھیل شروع ہوگا لیکن یہ کھیل کب تک چلے گا اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ کھیل اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک زرداری صاحب کی قوت برداشت اُن کا ساتھ دیتی رہے گی۔ ادھر عمران خان صاحب کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اُن پر زرداری صاحب سے جوڑ توڑ کا الزام لگے ۔ اس لئے وہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف جاری تحقیقاتی عمل کو روکیں گے تو نہیں تاہمکسی حد تک سست روی کا شکار کرکے اتنا وقت حاصلکرسکتے ہیں جس میں وہ کسی حد تک اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا سکیں۔وہ چاہیں گے کہ عوام کو کچھ کر دکھانے کا موقع ملے اور قوم نے اُن سے جو توقعات وابستہ کی ہیں ان میں سے کچھ نہ کچھ توقعات بارآور ثابت ہوسکیں۔خود زرداری صاحب بھی اس کیفیت اور جناب خان صاحب کے مزاج سے بخوبی واقف واقف ہیں۔ اس لئے وہ بھی یہی چاہیں گے کہ کم سے کم کسی نہ کسی طرح کرپشن اور
منی لانڈرنگ کی تحقیقات طوالت اختیار کر جائے اور وہ جیل جانے سے بچے رہیں۔ جناب وزیر اعظم کے پیش نظیر ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال کو سنبھالا دینا، مراعات یافتہ سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ کو ٹیکس نیت میں لاکے ملکی محصولات میں اضافہ کرنا، اپنے منشور کے مطابق بیروزگار نوجوانوں کے لئے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور وطن عزیز میں جاری کرپشن کے سیلاب کے آگے بند باندھنا ہے۔ اُن کی کوشش ہوگی کہ دا خلی طور پر امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش ہو تاکہ بیرون ملک پاکستان کے حوالے سے قائم منفی تآثر کو کم کرکے دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک سوفٹ امیج اُبھارا جاسکے۔ بدقسمتی سے پچھلے دور حکومت میں ہمارے خارجہ امور وزیر خارجہ کے
بغیر ہی چلتے رہے جبکہ ہمیں عالمی سطح پر بڑے بڑے مگر مچھوں کی سازشوں کا سامنا تھاجو ہماری تمام تر قربانیوں کے باوجود دنیا کے سامنے ہمیں دہشت گردوں کے پشت پناہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک متحرک وزیر خارجہ کی ضرورت تھی تاکہ ہم اپنا جائزدفاع کرسکتے لیکن وقت کے حکمران اس بات پر تیار نہ تھے کہ خوداپنی ٹیم میں سے کسی کو بآاختیار وزیر خارجہ بناتے۔ اپنی ناقص خارجہ پالیسی کے سبب ہمیں بھارت کے مقابلے میں اپنے پانیوں سے محروم ہونا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود پوری دنیا میں ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا لیکن پروپگنڈے کے اس جدید دور میں بھی ہم ملک کو بنئے کی دُکان سمجھ کر چلانے والے کاونٹر پر بیٹھ کر پائی پائی وصول کرنے کو ہی کامیابی سمجھتے رہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو اپنی قربانیوں اور دشمنوں کی سازشوں سے موثر اور مربوط طریقے سے آگا ہ کیا جائے تاکہ وطن عزیز پر غیر
ضروری بیرونی دباؤ کم سے کم ہو اور ہم پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے معاملات پر توجہ مرکوز کرسکیں۔ جناب شاہ محمود قریشی کامتوقع وزیر خارجہ کے طور پر انتخاب ایک بہترین آپشن ہے۔ ملکی معاملات میں بہتری لانے کے لئے قانون سازی از بس ضروری ہے مگر تحریک انصاف کی مجبوری یہ ہے کہ اُسے نہ تو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور نہ ہی ایوان بالا میں ۔اس لئے وہ کسی بھی قسم کی قانون سازی کرنے کے معاملہ میں ان پارٹیوں کی حمایت کے محتاج رہیں گے جن کا مفاد لوٹ مار کے موجودہ نظام سے وابستہ ہے۔جناب عمران خان کے مزاج سے واقف قارئین اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ اپنے کاز میں کسی قسم کا کمپرومائز کرنے کے قائل کبھی بھی نہیں ۔ ایسے میں اُن کی مشکلات دو چند ہوں گی۔ نظر یہ آ رہا ہے کہ جب تک اپنی پالیسی سے ہٹے بغیر وہ چل سکتے ہیں ، چلتے رہیں گے ۔ ان کی کوشش ہوگی کی کم سے کم وقت میں بنیادی نوعیت کی بعض ایسی ریفارمز کی جاسکیں جو اُن کے منشور پر عمل پیرا ہونے کا بھر پور تاثر اُبھار سکیں ۔ جب وہ نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے لگیں گے تو یقیناًملک کا مراعات یافتہ طبقہ اور اسمبلی میں موجود اس طبقہ اشرافیہ کے نمائندے اُن کی راہ میں حائل ہونگے۔ یہی وہ موقع ہوگا جب جناب عمران خان کو لوہا گرم دیکھ کے وار کرنا پڑے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت ملک بھر میں ایک ایسی فضاء قائم ہوجائے جس میں ایک طرف تحریک انصاف کی حکومت اور عوام ایک پیجپر ہوں اور ملک کا مراعات یافتہ طبقہ دوسرے پیج پر۔ قوم آج کی گو مگو والی کیفیت سے بڑی حد تک نکل چکی ہوگی اور رہزنوں کو رہبر سمجھنے کی خوش فہمی بھی بڑی حد تک دور ہوچکی ہوگی۔ یہی وہ موقع ہوگا جب جناب عمران خان وسط مدتی انتخابات کا ڈول ڈال سکیں تاکہ فیصلہ کن طور پر قوم کا اعتماد حاصل کیا جا سکے اور پوری قوت کے ساتھ پارٹی کے منشور پر عمل درآمد کرنا ممکن بنایا جا سکے۔ تاہم اس کے لئے شرط اول یہ ہوگی کہ جناب وزیر اعظم کی ٹیم روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر قوم کو کچھ کر دکھائے۔ یاد رکھئے وقت کم اور مقابلہ واقعی سخت ہے۔