گلگت بلتستان کے واحد تعلیمی بورڈ کو ختم کرنے کی سازش
آصف علی
ریسرچ سکالر
جامعہ کراچی
سر زمین بے آئین جس کا رقبہ 28174مربع میل ہے ۔جس کی آ بادی تقریباً 20 لاکھ ہے ۔جہاں اردو ،شینا، بروشکی، بلتی، وخی ، کھوار اور دیگر زبانیں بولی جاتی ھیں۔ گلگت بلتستان 10 اضلاع پر مشتمل ہے ۔سر زمین بے آئین میں اُونچے پہاڑوں کی سر زمیں ہے جس کے باڈر انڈیا ، چائنا اور افغانستان سے ملتےہے۔
سن 1948میں گلگت بلتستان بلا شرو ط و شروت 1947 میں آزاد ہونے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ۔اس وقت پورے گلگت بلتستان میں کوئی معاشی ، قانونی حتاکہ تعلیمی نظام بھی نہیں تھا ۔آہستہ آہستہ گلگت بلتستان کے طلاب کو مختلف شہروں کی طرف تعلیمی ہجرت کا سفر کرنا پڑا ۔علم کے زیور سے آراستہ ہو کر یہ جوان گھروں کی طرف لوٹ آئے اور انھوں نے بچوں کو تعلیم دینے کےسلسلے کا آغاز کیا ۔ان پڑھے لکھے اور باشعور طلاب نے خطے میں سکولوں کی تعمیر کا مطالبہ کیا مگر قومی اسمبلی میں اور سینٹ میں خطے کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے مطالبات کویکسر مسترد کر دیا گیا ۔جو کہ آج 70 سال گزر جانے کے بعد بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائیندگی نہ مل سکی اور آج بھی بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ان پڑھے لکھے طالب علموں کی جدوجہد کے لمبے عرصے بعد گلگت بلتستان میں اسکولوں کا آغاز ہوا اس طرح اس علاقے میں تعلیمی نظام وجود میں آیا ۔ شروع میں پرائمری اسکول اور پھر آہستہ آہستہ ان کو سکولز مڈل اور پھر ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا ۔
1970میں طالب علموں کو یونیورسٹی کے لیے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا۔ تعلیمی انقلاب کاآغاز تب ہوا جب یہاں پر نجی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔اس طرح ہائی سکولز کے بعد کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا
صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں خطے کی واحد یونیورسٹی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی( کے آئی یو) کا قیام عمل میں لایاگیا۔
تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب مرد ہو یا عورت اس کا بنیادی حق ہے جو کوئی نہیں چھین سکتا اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم کا ھے ۔تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے تعلیم کی وجہ سے قوموں کی ترقی اور زوال کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔تعلیم حاصل کرنے کا مطلب اسکول کالج یاجامعات سے ڈگری لینا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن ، انسانی طور طریقے سیکھنا بھی شامل ہوتا ہے تاکہ انسان معاشرتی روایات، ثقافت اور اقدر کا خیال رکھ سکے۔ گلگت بلتستان میں تعلیمی شرح پاکستان کے دیگر شہروں اور صوبوں کے مقابلے میں بہتریں ھے لیکن حال ہی میں ایک انوکھی سازش اس علاقے کی تعلیمی بورڈ کے ساتھ رچائی رہی ہیں ۔محکمہ تعلیم اور چییف سیکٹری کے آفس سے جاری کردہ بیان کے مطابق اسکولوں کو فیڈرل بورڈ سے الحق کرنے کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے ۔کے آئی یو بورڈ جو دہائی سے میٹرک سے بی اے، بی ایس سی تک کے امتحانات کا انعقاد کرواتا رہا ہے اس سے یہ حق چھینا جارہا ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کے آئی یو نے اس خطے کے طالب علموں کو پورے خطے میں علمی مواقع فراہم کیا اور خدمات پیش کی ہے جب کہ دوسری جانب چند سالوں سے کے آئی یو بورڈ کی حالت ونتیلٹر پر ہے تعلیمی معیار ، امتحان کے انعقاد ،پیپر چیککنگ ،اور نقل کی روک تھام میں ناکا م ہوا ہے ہاں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں اصلاح اور تعمیری پہلو کی اشدضرورت ہے ۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ کے آئی یو گلگت بلتستان کا واحد بورڈ ہے جس کی کارکردگی سندھ ، فصل آباد بہولپور ،گوجرانوالہ ،لاڑکانہ ،سکھر بنوں، کوہاٹ سوات بورڈ سے بہتر ہے جب ہر شہر کا اپنا بورڈ ہے تو گلگت بلتستان کے واحد بورڈ کو ختم کرنے کا فیصلہ سازش کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔اگر محکمہ تعلیم اور چیف سیکٹری گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام کے حوالے سے اتنے فکر مند اور مخلص ہیں تو کے آئی یوبورڈ میں نئی اصلاحات متعارف کرواتے ان کے اسٹاف کو ٹرننگ دیتے نقل کی روک تھام کیلئے اقدامات کرتے امتحانی عملے کی تربیت کرتے بورڈ کے نظام میں نئی اور جدید اصلاحات لاتے موجودہ کرپٹ عناصر کو نیب کی پکڑ میں دیتے یا پھر ان کے عہدوں میں تنزلی کر کے قابل تجربکار اور ماہر افراد کا انتخاب کرتے لیکن نہیں وہ ایسا نہیں کرینگے کیوں کہ ان کا مقصد گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام کی بہتری نہیں بس یہاں کے طلاب کی فیس کی وفاق میں منتقلی ہے کیوں کا فیڈرل بورڈ کی طرف منتقلی کی وجہ کیا ہےکے آئی یواورفیڈرل کا امتحانی طریق کار ایک جیسا ہے ۔فیڈرل بورڈ میں تجربکار عملہ اور اہل افراد ہے اس پالیسی کو کے آئی یومیں بھی چلای جا سکتی ہے اگر الحاق کرنا ہی ہے توپھر آغاخان بورڈ سے کیا جائے کیوں که ان کا امتحانی نظام کے آئی یواور فیڈرل دونوں سے الگ اور بہتر بھی ہے ۔میری فیڈرل بورڈ سے کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن جو فیڈرل بورڈ دینور جسے گنجان آباد علاقے میں اپنا امتحانی مراکز قائم نہیں کرتا ہے جلال آباد اوشکھدس جوتل نومل کے طلبہ طالبات کو گلگت آنا پڑتا ہے کیا وہ بورڈ کھرمنگ اولڈینگ ، شگر تسر، گلتری اور نگر ہوپر میں اپنا امتحانی مراکز قائم کرےگا یا پر نگر ہوپر ولوں کو نگر خاص اور تیسروالوں کو شگر خاص آنا نہ پڑے۔ گلگت بلتستان کے طالب علم کو نام کی درستگی یا پھر ارجنٹ مارک شیٹ کے لے اسلام آباد فیڈرل بورڈ آفس جانا پر جائے گا ۔
تجھ کو دیار غیر کے ہیروں کی ہے حوس
مجھ کو میرے دیار کا پتھر عزیز ہے
ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی آرا پیش کرنا چاہتا ہوں کہکے آئی یوبورڈ میں اصلاحات لائے جائے اور اس کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اداروں کو آزادی دی جائے کہ وہ جس بورڈ سے الحق کرنا چاہے کر لے۔ کے آئی یوکے کرپٹ مافیا کےخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور بورڈ انتظامیہ میں اہل افراد کو رکھا جائے تاکہ بہتر پالیسی کے ساتھ اس بورڈ کا میعار بہتر بنایا جا سکے ۔کے آئی یوخطے کا واحد تعلیمی بورڈ ہے جس کی ڈگری پر گلگت بلتستان کا نام آتا ہے ایسا نہ ہو کہ اس بے آیین خطے کے طالب علموں کی ڈگری سے اس حق کو بھی چھینا جائے اور گلگت بلتستان کی جگہ اسلام آباد کا نام آجاے ۔اس سلسے میں قراقرام یوتھ فورم کی کاوش کو سلام پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سازش کا سدباب کیلئے اپنی حکمت عملی طے کرینگے ۔امید کرتا ہوں اس سلسلے میں اساتذہ اور طلاب جذباتی انداز کے بجاے حقیقت پسندانہ ہو کر گلگت بلتستان کے ساتھ ہونے والی اس سازش کو بے نقاب کرینگے اور امید کرتا ہوں کے آئی یو والے بھی اپنے حصے کا دیا جلا کر سر زمین بے آئیں میں تعلیمی معیار کی بہتری میں اپنا اہم کردار ادا کرینگے۔ ۔۔۔۔۔