تعلیمی بحران اور اس کی اصلاح (قسط آخری )
تحریر: دیدار علی شاہ
اس ملک میں کئی بار تعلیمی پالیسیاں بھی آئیں اور تعلیمی منصوبے بھی بنے مگر میعار تعلیم اور شرح خواندگی کا گراف بہتر نہ ہوسکا۔یہ اس ملک کے لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی بچے اور بھینسیں ایک ہی سکول میں اکھٹے نظر آتے ہے۔ اس کی وجہ اس ملک میں ایک ایساماحول بنایا گیا ہے کہ طبقاتی تقسیم کی وجہ سے تعلیم علم حاصل کرنے کے لئے نہیں، سیرت و کردار کی تشکیل کے لئے بھی نہیں بلکہ اس کی افادی پہلو یعنی ملازمت یا روزگار حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جا رہی ہے۔پاکستان بننے کے بعد ابھی تک ہم اپنی منزلوں کا تعین صیح طور پر نہیں کر سکے۔اور آنے ولی نسلوں کی تربیت کی بنیاد نہیں بنا سکے۔ ایک مثالی معاشرہ کی بنیاد نہیں رکھ سکیں ہے۔اس ملک میں زندگی کے ہر شعبوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے اور آزادی کو 71سال گزرنے کے بعد تقریباََ ڈیڑھ نسل اپنی زندگی گزار چکی ہے اور تیسری نسل جوان ہوگئی ہے اور ابھی تک منزلوں کا تعین نہیں ہو سکا ہے ۔ اس معاشرے میں خودغرضی، منافقت، چوری، نفرت، سطحی سوچ ، تخریب، رشوت و حرام خوری ، اور انسان کی توہین والی معاشرہ بنتا جارہا ہے۔
اس ملک میں ایسے معاشرہ کی تشکیل پانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں پر نظام تعلیم، نصاب اور سکولوں کا نظام کسی مہذب معاشرے کے برعکس بہت پیچیدہ اور خودغرض ہاتھوں میں ہے۔ کیونکہ جس طرح سے اس ملک کے نوجوانواں کو تعلیم دی جائیں گے وہ اسی طرح تربیت اور ذہانت کے ساتھ معاشرے میں آئیں گے اور اس کا ذمہ دار اس ملک کے عوام نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں بیٹھے نمائندے ، بیروکریٹس اور وہ دانشور حضرات ہے جو نظام تعلیم کے نام پر اس ملک کو اندھیرے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
1984 کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی عائد ہوئی تھی جس سے طلبہ کی بہبود ، مثبت نشونماہ اور مثبت مباحثے کا اختتام ہواجس کا نقصان نوجوان نسل کو ضرور ہوا۔1984 سے پہلے تقریباََ دو دہائیوں میں ان تمام طلباء یونینز سے ہمارے ملک میں سائنس، طب، سیاست، انجینرنگ، صحافت، ادب، سمیت بہت سارے شعبوں میں بہترین قیادت اور اچھے لوگ نکلے ہے۔اس کی وجہ اُس وقت طلباء یونین میں ذہنی ، جسمانی، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر مختلف طریقے سے یہ طلباء تیار ہوتے تھے مختلف سرگرمیوں میں شامل ہو کر ان میں قائدانہ صلاحیت پیدا ہوتا تھا جو کہ ہر ملک میں یہ نصاب کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اُس وقت اس پر پابندی عائد کر کے نوجوان طبقہ کو محروم کر دیاگیاہے۔
کہتے ہے کہ ہر تخریب کاری کے اندر تعمیر کا ایک عنصر موجود ہوتا ہے ۔ اب اس تعلیمی تخریب کاری میں تعمیر کا عنصر کیسے اور کس طرح نظر آئے گا یہ اب آنے والا وقت اور حکومت ہی بتا پائے گا ۔ اور مستقبل قریب میں اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ حالات اور بھی ابتر ہوجائے گا۔اس میں بہتری لانے کے لئے بہت سارے گنجائش موجود ہے۔
پائدار ترقی کا تصور تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے بغیر ادھورا ہے۔تعلیم ہی کے ذریعے سے مفید مہارتیں، نظریات، قدریں، اور وہ تصورات سکھاتی ہے جس کی بنیاد پر معاشرے میں لوگوں کی سوچ تشکیل پاتی ہے۔تعلیم ہی ایک عام معاشرے کو تعلیم یافتہ معاشرے میں بدل سکتی ہے اوراسی کی بنیا د پر موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تخلیقی جوابات ملتے ہے۔
پوری دنیا اور ہر ملک اس کش مکش میں ہے کہ اپنے لیے کونسے تعلیمی نظام اور نصاب بنایا جائے کہ آنے والے وقتوں میں اس کی نسل دنیا کا مقابلہ کر سکے اور دنیا اپنی نئی نسل پر خاص توجہ دے رہی ہے ۔ ہر ملک کے ہر نئی نسل کم از کم تیس سال تک اپنے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالتی ہے یعنی ہر تیس سال بعد ایک نئی نسل تیار ہوتی ہے ۔ ہر آنے والے نسلوں کو جو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گا انھیں کس طرح اور کیسے تیار کرنی چاہیے پوری دنیا نے اپنے لئے نظام تعلیم اور نصاب کے ذریعے طریقہ کار واضح کی ہے اور وہ وقت اور حالات کے مطابق سائنسی بنیادوں پر اس میں تبدیلی بھی کرتے رہتے ہے اور اسی نظام تعلیم اور نصاب کے مطابق اُن کی نسل تیار ہوتی ہے جن کی ذہن سازی آنے والے سائنسی دنیا کے ساتھ مقابلہ کے بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور وہ اس لئے آج چاند اور مریخ تک پہنچ چکے ہے ۔ جبکہ پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد ابھی تک ہم دنیا کے ساتھ علمی مقابلہ کے بجائے ہم اپنی پرانی روایات کو لے کر ان سے نکلنا ہی نہیں چاہتے اور اسی وجہ سے اس ملک میں سطحی سیاست، سطحی قومیت، سطحی معاشرت اور شعور سے خالی سطحی ذہنیت نے جنم لیا ہے۔
اب یہ وقت ہے کہ ہمارے قومی تعلیمی نظام کو اس ملک کی مستقبل کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا جائے ۔ ایک مضبوط ، ترقی یافتہ اور ثمر آور تعلیمی نظام ہی مضبوط اور مہذب قوم کی تعمیر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے ۔باشعور لوگوں کو تعلیمی میدان میں عالمی تبدیلیوں کو سمجھنا ہوگااور حکومت وقت کو ان تبدیلیوں کے مطابق اپنے تعلیمی نظام اور ملکی مفاد کی ترقی اور ارتقا کے لئے گفتگو اور کوشش کرنی چاہیے۔جس میں لوکل کمیونٹی ، اساتذہ، عوامی نمائندے، دانشور، مفکرین، ادیب، ایجوکیشنسٹ اور حکومت مل کر اسے ملک کے دوررس نتائج کے لئے بنا سکتے ہے۔
پہلی چیز پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم بنانا ہے اور اس میں خاص کر نصاب کی تشکیل شامل ہے۔ نصاب کی تشکیل حساس معاملہ ہے کیونکہ اسی نصاب کے ذریعے کسی بھی ملک کے مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس پورے مرحلے میں اساتذہ اور امتحانی نظام اہم حصے سمجھتے ہے کیونکہ نظام تعلیم اور نصاب جتنے بھی اچھے اور دوررس ہوں اور اساتذہ کم تربیت یافتہ ہو تو اثرات الٹ ہونگے اس کے ساتھ امتحانی نظام جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی تعلیمی میعار برقرار رہے گا اور ان تمام مرحلوں ، شعبوں اور نظام کے لیے چیک اینڈ بلینس کا نظام مضبوط ہوں تو وقت کے ساتھ یہ نظام مضبوط ہوگا اور ملک میں ترقی کی سمت درست جانب گامزن ہوگا۔
جب ایک جامع اور دور رس تعلیمی نظام اور نصاب تیار ہو کر اس پر عمل شروع ہوگا تو اس سے پہلے جتنے بھی کمزوریاں اور ناقص حکمت عملی رہی ہے یہ خود بخود حل ہو جائیں گے جس میں آوٹ آف سکول بچے ہے، تعلیمی بجٹ، سکولوں پر قبضے، اساتذہ کی تربیت اور بہت سارے مسائل شامل ہے جو وقت اور حالات اور اس نظام کے ساتھ حل ہو جائیں گے۔
تعلیمی نظام اور نصاب اس ملک میں ناگزیر ہے کیونکہ اس ملک کے بچے ہمارے اثاثے ہے، ہمارے وارث ہے، ہمارے آنے والا کل اور پاکستان کے مستقبل ہے۔
آخر میں یہ بات جو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ جو نصابی کتاب ایک استاد اپنے دور تعلیم کے دوران سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتا ہے ، بیس سال بعد وہی نصاب وہی کتاب اپنے طلبا کو پڑھاتا ہے، اس بیس سال کے دوران دنیا میں علمی، معاشی، سیاسی، اور سائنسی طور پر پتہ
نہیں کتنی تبدیلی رونماہ ہوتی ہے ، کئی تھیوریز رد ہوجاتے ہے اورکئی نئی تھیوریز دنیا میں آجاتے ہے اور دنیا انہیں اپنے تعلیمی نصاب کاحصہ بناتی ہے مگر بدقسمتی سے اس ملک میں دادا نے جو سبق آج سے 50 سال پہلے پڑھا تھا وہی سبق آج پوتا بھی پڑھ رہاہوتاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی حکومت جو نیا پاکستان کا نعرہ بلند کر رہا ہے کہا تک اس ملک میں نئی تعلیمی نظام اور نصاب بنا کر عمل کرا سکتا ہے۔