ذہنی اور فکری معذوری
تحریر : ایمان شاہ
کالم نگاری کا آغاز کرتے ہوئے اندازہ تھا کہ مجھے دوستیاں ترک کرنا ہونگی ، دشمن پیدا کرنے ہونگے ، قلم کی نوک کی بجائے کوبرے کے ’’ پھن‘‘ سے لکھنا ہوگا ، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہوگا ، بھیڑیوں کے غول سیچھیڑخانی کرنا ہوگی ، عقل و دانش کے ’’ اہرام ‘‘ سے نیچے اتر کر تھڑے پہ محفل سجانا ہوگی ، صرف دو سال کے عرصے اور 600کے قریب لکھے گئے کالموں کا خالص نتیجہ یہی سامنے آیا ہے جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں اورآج بھی میرا پیغام صاف ، واضح اور دو ٹوک ہے کہمیں صحافتی مہم جوئی سے باز نہیں آؤں گا ، میں ناگ کو ناگ اور ناگن کو ناگن لکھتا رہوں گا ، کیا کالم اور کیا کالم نگاری ، میں تو اپنی ’’ جلن ‘‘ اور ’’ کڑھن ‘‘ اپنے ’’ آنسو ‘‘ اور ’’ آہیں ‘‘ بیان کر دیتا ہوں،میں ایک ورکنگ جرنلسٹس کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوں ، 16گھنٹے کام کرتا ہوں جسکے عوض چند ہزار کما لیتا ہوں اسکے باوجود میں آسودہ اور خوشحال ہوں کیونکہ میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے ، میرے ٹریک ریکارڈ سے بھی میرے دوست احباب واقف ہیں ، 28سال کی عمر میں گلگت پریس کلب کی صدارت کا موقع مل گیا ، اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گلگت بلتستان کی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں (14جماعتوں ) کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کا اعزاز حاصل کیا ، گلگت بلتستان نیشنل الائنس (GBNA) کا قیام گلگت پریس کلب کی کاوشوں کے نتیجے میں ممکن ہوا ، حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ ملکر مذہبی ہم آہنگی کیلئے تمام مسالک کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ، زندگی کے چند سال سیاست کی نذر ہو گئے ، صحافت میں دوبارہ قدم رکھا تو سیاست کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا ، میر غضنفر سمیت کسی بھی سیاستدان کے ساتھ ذاتی جھگڑا نہیں لیکن صحافتی امور کی انجام دہی کرتے ہوئے حق اور سچ کو سامنے لاتے ہوئے کسی خوف یا لالچ کو خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ ہے کہ وہ میری حفاظت فرمائے گا۔۔۔۔۔
تمہید کی ضرورت پڑ گئی تھی سو چند جملے لکھ ڈالے ، اب ذرا اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ، چند روز قبل میر غضنفر اینڈ کمپنی کی خفیہ میٹنگ میں کی جانے والی گفتگو کو موضوع بنا کر کالم لکھ ڈالا تو ہنزہ سمیت گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے با شعور عوام نے سی پیک کے خلاف ایک غیر مقامی شخص شہریار خٹک کے مزموم عزائم کو بر وقت بے نقاب کرنے پر حوصلہ افزائی فرمائی جبکہ دوسری جانب شہریار خٹک اور میر غضنفر کو معصوم ثابت کرنے کیلئے ایک مخصوص ٹولہ جنکی تعداد درجن بھر سے زائد نہیں ہے سرگرم عمل ہو گیا ، سوشل میڈیا کے ذریعے علاقے میں بے چینی اور بے یقینی پیدا کرنے کیلئے سرگرم سوشل میڈیا کے ان مجاہدوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ روزنامہ اوصاف میں شائع ہونے والی خبر اور کالم میں میر غضنفر علی خان ، عتیقہ غضنفر ، شہریار خٹک اور سلیم خان کے مابین ایک گھنٹے 10منٹ تک ہونے والے گفتگو کا صرف خلاصہ بیان ہوا تھایا خلاصہ بیان کیا گیا تھا جبکہ اصل کہانی ابھی باقی ہے ، میں نے اپنے کالم میں واضح کر دیا تھا کہ شہریار خٹک نامی شخص نے گورنر گلگت بلتستان کو اس بات پر قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ ہنزہ میں پاکستان کے خلاف لوگوں کو سڑک پر لاکر احتجاج کریں اور آخری کارڈ کے طور پر ہنزہ کا الحاق پاکستان کے ساتھ ختم کرکے چین کے ساتھ شامل ہونے کا شوشہ چھوڑ دے ، میرا موقف یہ تھا کہ شہریار خٹک کی بیہودہ گفتگو کوگورنر گلگت بلتستان کیوں غور سے سنتے رہے، اور اثبات میں سر ہلاتے رہے ؟جبکہ ممبر قانون ساز اسمبلی عتیقہ غضنفر پرجوش تائید کرتی نظر آئیں۔
گورنر گلگت بلتستان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف کی جانے والی گفتگو سے نہ صرف لا تعلقی کا اظہار کرتے بلکہ ایسے کسی بھی شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کر لیتے ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں میرے پاس دو راستے تھے ، میں تمام تر ثبوت کے باوجود اتنے بڑے سیکنڈل کو چھپائے رکھتا اور میر اینڈ کمپنی کے ساتھ خفیہ ڈیل کرکے درمیانی راستہ نکال لیتا جو آسان بھی تھا اور ذاتی طور پر میرے لئے کئی حوالوں سے فائدے کا باعث بھی، دوسرا راستہ جس کا میں نے انتخاب کیا وہ کٹھن اور مشکل ضرور تھا لیکن اس راستے پر چل کر میں نے ملک اور قوم کے مفاد کو چند ٹکوں کے خاطر بیچنے والوں کو بے نقاب کرکے اپنا قومی فریضہ نبھایا ، میرا ضمیر مطمئن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس قرض کی ایک قسط ادا کی ہے جو اس ملک کی طرف سے مجھ پر واجب ہے ۔۔۔۔
سوشل میڈیا کے ذریعے میر غضنفر اور شہریار خٹک کو معصوم ثابت کرنے کی کوششوں میں اپنے ضمیر کا سودا کرنے والوں سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ شہریار خٹک نامی شخص نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہنزہ کے تشخص کو پامال کرنے کا گھناؤنا منصوبہ بنایا تھا اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے چند مقامی لوگ جانے یا انجانے میں شریک سفر تھے، شہریار خٹک لندن فرار ہوچکا ہے تاہم مجھے پورا یقین ہے کہ جلد شہریار خٹک قانون کی گرفت میں ہو گا اور ہنزہ میں بدامنی سمیت دیگر سماجی مسائل پیدا کرکے حالات کو خراب کرنے کی سازش کے منفی پہلوؤں سے بہت جلد پردہ اٹھ جائے گا۔۔۔۔۔
مجھے میر غضنفر کے گورنر رہنے یا نہ رہنے سے کوئی غرض نہیں جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہنزہ کے عوام کو درپیش بیشتر مسائل کی ذمہ داری میر فیملی پر عائد ہوتی ہے، میر غضنفر 7مرتبہ ہنزہ کے عوام کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گئے ، عتیقہ غضنفر ہنزہ کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے تین مرتبہ اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں ، میر غضنفر کے بیٹے میر سلیم خان کو ہنزہ کے عوام نے ووٹ دیکر عزت بخشی ، میر غضنفر 2004تا 2009تک چیف ایگزیکٹیو کے عہدے پر تعینات رہے ، 2015سے لیکر 16اگست 2018تک گورنر گلگت بلتستان کی حیثیت سے مراعات لیتے رہے لیکن ضلع ہنزہ اس وقت باقی 9اضلاع کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔
اے کے ڈی این کے اداروں کی توجہ نہ ہوتی تو شاید پسماندہ ترین ضلعے کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ، بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ ، سرکاری ملازمتوں میں کی جانے والی زیادتیاں ، دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے ملازمین کی بھر مار ، نا اہل اور کرپٹ آفیسرز کی تعیناتیاں ، ترقیاتی کاموں میں سست روی سمیت دیگر ایسے مسائل سے ہنزہ کے عوام متاثر ہو رہے ہیں جن کا تصور بھی دیگر اضلاع میں نہیں کیا جا سکتا ، میر غضنفر گورنر رہے یا نہ رہے اس سے ہنزہ کے عوام کو بھی کوئی غرض نہیں کیونکہ میر فیملی نے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے ہنزہ اور ہنزہ کے عوام کا کارڈ تو استعمال کیا لیکن اقتدار کے حصول کے بعد پلٹ کر بھی دیکھنا گوارا نہیں کیا۔
سوشل میڈیا پر ایک مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم عمل درجن بھر ذہنی و فکری صلاحیتوں سے یکسر محروم اور معذور لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہنزہ کے با شعور عوام کو اس بات سے اب کوئی سروکار نہیں ہے کہ میر غضنفر گورنر کے عہدے پر ہے یا نہیں کیونکہ ہنزہ کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ ناکردہ گناہوں کی گزشتہ چھ سالوں سے سزا بھگتنے والے درجنوں نوجوانوں کی داد رسی کرنے کی میر غضنفر اور عتیقہ غضنفر نے سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی ، بحیثیت گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر نامی شخص اپنے اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے سانحہ علی آباد کے متاثرین کی دلجوئی کر سکتے تھے ، میر غضنفر جسٹس (ر) رانا محمد شمیم کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کی جانے والی بارگیننگ کے نکات میں گاہکوچ جیل میں پابند سلاسل نوجوانوں کی رہائی بھی شامل کرکے رہائی دلا سکتے تھے ، ایسا نہیں کیا اور ایسا اس لئے نہیں کیا گیا کہ نقد رقم ملنے کی کوئی امید نہیں تھی۔
میر غضنفر کے ساتھ میری نہ تو کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی ذاتی رنجش۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہنزہ میں افرا تفری پھیلانے والوں کو یہی کہوں گا کہ وہ کوئلے کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرنے سے باز رہیں اور ہنزہ کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔۔۔۔۔۔
اس شعرکے ساتھ اجازت ۔۔۔۔
عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں