گلگت کی سڑکو ں پر بھیک مانگنے والے ننھے بچے
تحریر: اسرارالدین اسرار
گلگت شہر میں گذشتہ کچھ مہنوں سے بھیکاریوں کی تعداد تشویشنا ک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ ان میں زیادہ تر بچے ہیں جو ٹولیوں کی شکل میں رات گئے تک شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے رہتے ہیں اور جدھر موقع ملے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ ان ننھے ہاتھوں کو اپنے آگے پھیلتے دیکھ کر لوگوں کوترس آتا ہے اور وہ اکثر کچھ نہ کچھ دے ہی دیتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان بچوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جہاں پیشہ ور بھیکاری نہیں پائے جاتے تھے۔ ماضی میں یہ دیکھا گیا تھا کہ موسم گرما میں ملک کے دیگر حصوں سے بڑی تعداد میں بھیکاری گلگت بلتستان کا رخ کرتے تھے اور سردیوں کی آمد کے ساتھ وہ یہاں سے رخصت ہوتے تھے ۔ کئی دفعہ سرکار ی طور پر ان کو بسوں میں بیٹھا کر یہاں سے واپس بھیج دیا جاتا رہا ہے ۔ مگر اس دفعہ صورت حال مختلف ہے کیونکہ جو بچے بھیک مانگتے ہیں وہ مقامی ہیں۔ بعض وہ بچے یا بڑے بھیکاری ہیں جو گلگت شہر کے مضافات سے صبح شہر میں آتے ہیں اور پیسے جمع کر کے شام کو واپس چلے جاتے ہیں جبکہ ایسے بچے بھی ہیں جن کے ماں باپ غربت سے تنگ آ کر گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں سے شہر منتقل ہوئے ہیں۔ یہ لوگ گلگت شہر میں کسی ایک کمرہ پر مشتمل گھر میں رہتے ہیں اور بھیک یا چوری سے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ یہی بچے شہر کے گلی محلوں سے پوری طرح واقف ہونے کے بعد چور ی کی وارداتیں بھی کرتے پائے گئے ہیں۔ ماضی میں تسلسل سے ہونے والی چوری کی کئی وارداتوں میں بچوں کا ایک گینگ ملوث پایا گیا تھا۔ جس کی سرپرستی ایک کم عمر چور ہی کر رہا تھا ۔ چھوٹو گینگ کاسرغنہ چھوٹا ڈان کے نام سے مشہور تھا۔ یہ گینگ سونی کوٹ ، ذولفقار آباد اور جوٹیال سمیت شہر کے مختلف حصوں کے سینکڑوں گھر وں میں وارداتیں کر چکا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ان کو جب پولیس پکڑ لیتی تھی تو کم عمری کے باعث جلد رہا ہوجاتے تھے۔ ان حقائق سے پردہ اٹھنے کے بعد یہ کوئی بعید نہیں ہے کہ یہی بچے بعد میں دیگر جرائم اور دھشت گردی کی وارداتوں میں بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ زیادہ فکر کی بات یہ بھی ہے کہ ان بھیکاریوں کی ٹولیوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے ۔ یہ لڑکیاں بڑی ہونے تک پیشہ ور بھیکاری یا جرائم پیشہ بن سکتی ہیں۔
حکومت نے اس اہم مسلے کی طرف بروقت توجہ نہیں دیا تو صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے ۔ گلگت بلتستان میں تاحال پیشہ ور بھیکاری نہیں ہیں۔ گداگری کے حوالے سے جو حالت ملک کے دیگر حصوں کی ہے وہ فی الحال یہاں نہیں ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں بچوں کو اغواء کر کے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے جاتے ہیں پھر ان کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ان کا باقاعدہ ایک منظم نیٹ ورک ہوتا ہے جو اس کام کو چلاتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھیک مانگنے کی اس لعنت کو اس کی ابتدائی شکل میں ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی مشکل یا ناممکن کام نہیں ہے۔ ایک ادارہ اگر اس کا بیڑا اٹھائے تو اس کو ختم کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے حکومت کی سرپرستی اور تھوڑے بہت وسائل کی ضرورت ہے ۔عام طور پر بھیک مانگنے کی وجہ بے روزگاری اور غربت بتایا جاتا ہے ۔ مگر کچھ لوگ شوقیہ یا نشہ کرنے کے لئے اس لعنت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ضرورت مند ، شوقیہ اور نشئی بھیکاریوں کے ساتھ الگ الگ نمٹا جائے ۔ ضرورت مند وں میں جو صحت مند ہیں ان کے لئے ہنراور ر وزگار، افراد باہم معذوری ، بزرگ اور خواتین کے لئے وظیفہ جبکہ بھیک مانگنے والے بچوں کے والدین کی معاشی حالت کے بارے میں معلومات لیکر ان کی مدد کی جائے اور جو والدین جان بوجھ کر بچوں کو اس کام کے طرف دھکیلتے ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ بھیک کی اس لعنت پر قابو پانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے تو وہ بھی کی جائے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں بھیک مانگنا قانونا جرم ہے۔ مگر جو ضرورت مند ہوتے ہیں ان کی مدد کے لئے ادارے کام بھی کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں چائلڈ رائٹس کمیشن جی بی کو ذمہ داری دی جائے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اس حوالے سے سفارشات تیار کریں۔ اگر ان سے یہ کام نہیں ہوتا ہے تو یتیم اور بے سہارا بچوں کیلئے کام کرنے والے کسی غیر سرکاری ادارے کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ امید ہے جی بی حکومت اس ضمن میں اپنا کردار بر وقت ادا گی۔ابتدائی طور پر ایسے لوگوں کو پکڑ کر ایک جگہ جمع کرکے ان کی مجبوری معلوم کی جاسکتی ہے یہ کام پولیس یا مجسٹریٹ بھی کر سکتا ہے۔