قطروں میں چھپی زندگی
فدا علی شاہ غذری
ہم ایک ایسے ملک کے با سی ہیں جو دُنیا کے تین ایسے بد نصیب ممالک کے فہرست میں شا مل ہے جو آج تک ایک وائرس سے بر سر پیکار ہیں۔ یہ وائرس معذور پیدا کر نے کی مشین ہے جو نو مولود سے پا نچ سال تک کے بچوں کے چہروں سے مسکرا ہٹیں چھین کر اُ داسی انڈیل دیتی ہے۔سچ پو چھیئے تو زندگی ہی چھین لیتی ہے ۔بلا! وہ بھی کو ئی زندگی ہے جو آپ کو او ئے لنگڑے کا خطاب دیں؟
کچھ زمین ذادے تو پو لیو جیسی کئی مہلک جرا ثوم کو خاندان سمیت ملیا میٹ کر کے خو د آسمان پر نکل گئے لیکن ہم انشا ء اللہ اور ما شاء اللہ کے دو لفظوں کے درمیان کہیں منزل کھو بیٹھے ہیں، جن میں ایک ہماری دلی نا رضا مندی، کام چوری اور فرائض پر ڈنڈا ماری جبکہ دوسرا ہماری نا اہلی، سستی اور کا ہلی پر پردہ پو شی کے وقت کام آتا ہے۔ مثال کے طورپر ، ہم میں سے کسی کا بھی من کچھ کر نے پر رضا مند نہ ہو تو ہم بے یقینی کی کیفیت جنم دینے کے لئے انشاء اللہ کے لفظ کے پیچھے کسی امر کے ہو نے کا جواز چھپا دیں گے،کوئی بتلا ئے کہ اللہ کیوں نہیں چا ہے گا کہ اچھا کام نہ ہو اور برُے کام میں ہم کیوں اُ ن کی چاہت طلب کریں؟
مغرب کے نا خلف تو ان دو لفظوں کو پیشہ حیات سے نکال کر ضابطہ حیات کو کسی اور ڈگر پر ڈال دئیے تو’’ نہ رہے بھانس نہ بجے بانسری‘‘ کے مصداق نہ پو لیو، چچک،خسرہ اور ہی نہ ہی کو ئی دوسری مہلک جراثیم پنپ سکی۔ دوسری طرف ہم ہیں اہل ایمان کہ اپنی کاہلی، سستی اور نا اہلی کو اللہ کی چاہت قرار دے کر نظام ہستی سے اُلجھ رہے ہیں۔زرا غور فر ما ئے اللہ اور اس کے پیغمبرؐ کی چاہت ’’ اطہور شترالایمان ‘‘ بھی ایمان کی روشنی میں گھر کے با لکو نی سے نیچے گلی میں کچر ہ انڈیلنے کی بیماری کی صورت میں بدل گئی ہے ۔
نا ئیجریا اور افغانستان بھی ہماری طرح اہل ایمان سے لبر یز ہیں جہاں کی مسلمان اکثریت سمیت اقلیت بھی مسلسل اس وائرس ے لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ملک میں بھی ان قطروں سے خوف زدہ جہالت بر سر پیکار ہیں جن کو ڈر ہے کہ اہل مغرب اپنے خون پسینے سے کما ئے قطروں کو ہماری افزا ئش نسل کی روک تھام کے لئے بھیج رہے ہیں
تا کہ سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہمارے سا ئنسدان کہیں اُن سے سبقت نہ لے جا ئے ،بلا کا خوف ہے ،اگر یہ خوف پو لیو کے قطروں کے بجا ئے اللہ سے ہو تا توہمارے اکلو تے ایدھی صاحب کو لا کھوں گمنام بچوں کے خا نے میں اپنا نام لکھوانے کی ضرورت پیش نہیں آ تی جو ہماری جنسی صلا حیت کی فراوانی سے کچر ے کے ڈبوں، پلاسٹک کے تھیلوں یا پھر انسا نیت کے مسیحا ایدھی کے مرا کز کے با ہر خوف خدا سے خا لی انسانوں کے کا لے کر تو توں کا حساب چکا رہے ہو تے ہیں ۔کاش یہ خوف خدا ہو تا تو سڑک کے کنارے چادر کے نیچے نشئی کسی مومن مسلمان کے بچے نہیں ہو تے، کاش ہمیں ان قطروں میں چھپا سمندر نظر آ سکے تو پتہ چلتا کہ یہ سمندر کسی آسمانی بارش سے نہیں بلکہ ڈالرز اور پاونڈز کی بارش سے وجود میں آیا ہے جو اہل مغرب کے مہر بانوں نے ہم پر کرم کر کے عرش والے سے اپنے گناہوں کی بخشش چا ہتے ہیں ۔ ہماری تعلیمات بتا تی ہے کہ عرش والا اُس محبت رکھے گا جو فرش والوں پر محبت نچھا ور کر ے گا ۔
پو لیو کے قطروں سے جنگ پاکستان میں جاری ہے اور اب یہ جنگ آہستہ آہستہ گلگت بلتستان کی طرف رُخ کر رہا ہے جس کا ثبوت سوموار کے روز پو لیو ٹیم پر حملے کی صورت میں ملا، وطن عزیز کا پُر امن ضلع غذر کے حسین و جمیل گاوں پھنڈر کے نا لے میں ایک عام چر واہے کے ذہن میں زندگی بخشنے والے قطروں کے خلاف غلاظت کون بھر رہا ہے جس کا کھوج لگا نا ابھی با قی ہے۔ دوسری طرف غذر کے ہیڈ کوارٹر سے ملحقہ گاوں داما س میں بھی ایک شخص اپنے بچوں کو خطرہ ناک قطرے پلانے سے انکا ر کر کے اس غلیظ ذہنیت کو پروان چڑ ھا نے کی حا می بھر لی ہے ۔ حکام اپنی کا ر کر دگی کی خا طر اس واقعے کو عیاں ہو نے سے تو بچا لئے لیکن خطے میں اس سوچ کو جگہ مل چکی ہے جس کی قلع قمع کر نا وقت کی ضرورت ہے ورنہ اس قسم کے رو یے کسی تصادم کی نو ید لے کر آئیں گے ۔ضلعی انتطا میہ علا قے میں چند شر پسند عنا صر کی پشت پنا ہی کر رہی ہے جس کی مثال پو لیو ٹیم کے مبینہ ملزم کے خلاف انسداد دہشت گر دی کے دفعات نہ لگا نے سے سا منے آئی ہے کیو نکہ پو رے ملک میں پو لیو کے جا نبازوں پر حملہ کر نے والوں کو اے ٹی اے کے دفعات کا سا منا کر نا پڑ تا ہے جبکہ غذر میں
سما جی کارکن، سیا سی رہنما اور طلباء اے ٹی اے اور شیڈول فور کے زیر عتاب ہیں اور ایسے شر پسند عناصر کے سامنے انتظامیہ کسی مجبوری کے سبب بے بس ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ہم من حیث القوم جس راہ سے منزل کی جانب جا رہے ہیں اس کا انجام کیا ہو گا،کون آئے گا جو منزل کی دوری ، سفر کے کھٹن پیچ و خم سے ہمیں آگاہ کر یں اور کون ہو گا وہ خوش نصیب جو بچ کر منزل مراد پر پہنچ پا ئے گا؟کیا کسی نے سو چا ہے کہ قطرے کو سمندر بننے میں کتنا عر صہ لگا ہوگااور جو سمندر قطرہ بننے جا رہا ہے اس کا کو ئی روک تھام تمہارے پاس ہے جو تم قطروں سے ڈر نے لگے ہو، صاحب! مت ڈرو قطروں سیاور نہ ہی ڈراو ان قطروں سے۔۔۔ قطروں میں ہی زندگی چھپی ہے۔۔
یار زندہ صحبت با قی
لکھا ری کے بارے:
فداعلی شاہ غذری لفظوں میں جینا چا ہتا ہے، ا پنی مادری زبان ( کھوار ) میں شاعری کر تا ہے اورنان نفقہ کے لئے اسلام آباد کے ایک موقر انگریزی اخبار سے منسلک ہے۔