مہنگا ئی سے نہ گھبرا نا
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ عوام کو مہنگائی سے گھبرانا نہیں چا ہیے اگرگیس مہنگی ہوگئی تو کوئی بات نہیں بجلی کا بل 600روپے کی جگہ 2600روپے آتا ہے تو غم مت کر و اگرہیلمٹ کا جر مانہ 300روپے کی جگہ 7000/رپے لیا جاتا ہے تو پروا مت کرو ، اگر سڑ ھے ہوئے ٹما ٹر کا جر ما نہ 1000روپے کی جگہ 8000لیا جاتا ہے تو فکر مت کرو اگر یونیور سٹی کی فیس میں دگنا اضا فہ ہو اہے تو غم اور فکر والی کوئی بات نہیں اگر سیمنٹ اور سریامہنگاہو گیا تو پروا مت کرو یہ اچھے دنوں کی بشا رت ہے روشن مستقبل کی نوید ہے ایک قدیم فلمی گیت کا مصرعہ تھا
” یو ں غم سے نہ گھبرا نااے میرے دل نا دان ”
اب دل نا دان کو سمجھا نے کے لئے آدمی کہاں سے مثالیں اور نظیریں ڈھونڈ نکا لے کیا کیا جتن کرے ! سلسلہ یہ ہے کہ مو جو دہ دور عبوری دور ہے اس کو انگریزی میں ٹرانزیشن کہتے ہیں اس دور میں اٹھا ئے گئے اقدا مات کو ما ہرین معا شیات نے ”شاک اکا نو می”کا نا م دیا ہے 1986ء میں سویت یو نین کے اندر ایسا ہی دور آیا تھا وہاں عوام کو کمیو نزم سے بیزار کرنے کے لئے Shock Economyکا تجربہ کیا گیا تھا ہمارے ہاں عوام کو جمہوریت سے بیزار اور تائب کرانے کے لئے اس طرح کی بساط بچھا ئی جا رہی ہے بلکہ بچھائی گئی ہے میخا ئل گور با چوف نے اس مقصد کے لئے نا مور معشیت دانوں سے کام لیا تھا تھنک ٹینک بٹھا یا تھا ما ہرین معا شیات نے کہا عوام کو جھٹکے دو ، مسلسل جھٹکے دو، لگا تار جھٹکے دو تا کہ کمیو نزم سے لوگ بیزار ہو جائیں چنا نچہ Perestroikaاور Glassnostکے ذریعے لو گوں کو بار بار اور لگا تار جھٹکے دیے گئے یہاں تک کہ لوگ چیخ اٹھے ریا ستوں نے بغاوت کا علم بلند کیا سویت یونین کا پورا نظام ختم ہوا کھلی منڈی کی معیشت آگئی تو لو گوں نے سکھ اور ارام کا سانس لیا اگر گور با چوف لو گوں کو مسلسل جھٹکے دے کر خبر دار نہ کر تے تو سر مایہ دارا نہ نظام کا آنا اور اس کے آنے پر خوشی کے شا د یانے بجا نا محال تھا پا کستانی عوام کو جمہو ریت کے جھٹکوں کے ذریعے آنے والے دور کے لئے تیار کیا جا رہا ہے جب لوگ جمہو ریت سے بیزار ہو جائینگے تو آمریت کا خیر مقدم کر ینگے یہ اندا زہ لگانے والی با ت ہے اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور درست بھی ہو سکتاہے جیسا کہ سا بق افغان صدر سر دار داود او ر کوچوان کی گفتگو کا واقعہ مشہور ہے کہتے ہیں 1976کا سا ل تھا سر دیوں کے دن تھے سردار دا ود کو اطلاع ملی کہ کا بل شہر میں مہنگائی بہت ہے دکا ندار اپنا مال مہنگا بیچتے ہیں بس، تانگہ ،ٹیکسی وغیرہ کے کرایے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں سردار داود نے بھیس بدل لیا کمبل اوڑھ کر با ہر نکلا با زار وں میں خریدداری اور مول تول کر کے دور نکل گیا اب سو دا سلف اس کے ہاتھ میں تھا اس نے تانگے والے کو آواز دی تا نگہ قریب آیا اس نے کہا پل چر خی جا نا ہے کو چواں نے کہا جا ونگا کتنے پیسے دوگے ؟ سواری کے روپ میں سرداردا ود بولا 10روپے سر کاری ریٹ ہے کوچواں نے کہا تھو ڑا اوپر جا ؤ اس نے کہا 15روپے کو چواں بو لا اور بھی اوپر سردار نے کہا 20روپے ،کوچوان بو لا اور بھی اوپر سردار نے کہا 25 روپے کو چوان نے کہا اور بھی اوپر سردار نے کہا 30 روپے کوچواں نے کہا بیٹھو سردار داؤد تا نگے میں بیٹھا ۔ بیٹھنے کے بعد کہا تم سوا ریوں پر بہت ظلم کر تے ہو سر کاری ریٹ پر کیوں نہیں جا تے؟ کوچواں نے کہا کیا تم سر کاری سپاہی ہو، سردار داودنے کہا تھوڑا سا اوپر جاؤ کوچواں نے کہا حوالدار ہو؟ اُس نے کہا اور بھی اوپر جا ؤ کوچواں نے کہا تھا نیدار ہو اُس نے کہا اور بھی اوپر جا ؤ کوچواں نے غصہ ہو کر کہا تم سردار داؤد ہو؟ سردار نے کمبل اتار کر اُس کی طرف دیکھا تو کوچوان نے پہچان لیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ سردار داؤد نے کہا گھبراؤ نہیں بولو تمہاری کیا سزا ہو گی؟کوچوان نے کہا کہ جرمانہ ہوگا۔سردار نے کہا تھوڑا اوپر جاؤ کوچوان نے کہا قید ہو گی سردار داود نے کہا اور بھی اوپر جاؤ کو چوان نے کانپتے ہو ئے کہا پھانسی ہو گی۔ سردار داود نے کہا یہ ہوئی نا بات! اب تم مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتے۔ ہم پاکستانی اندازہ لگانے میں کابل کے کوچوان سے بھی زیادہ کورے اور نکمے ہیں۔ہماا ہر اندازہ غلط ہو تا ہے اور جب ہم درست اندازہ لگا لیتے ہیں تو پھانسی کا پھندا تیار ہو چکا ہو تا ہے۔ گذشتہ 70 سالوں میں ہماری معیشت کو کئی ٹیکے لگ چکے ہیں۔ ہر ٹیکہ لگانے والے نے کہا تمہارا علاج قرض ہے چنانچہ کشکول توڑنے کا وعدہ کرنے والوں نے پھر قرض لیکر کشکول بھر دیا خود انحصاری کے بلند بانگ دعوے لیکر جو لوگ آئے ہم کو اس حال تک پہنچا گئے کہ سانس لینے کا انحصار بھی امریکی امداد، آئی ایم ایف کے قرض اور ورلڈ بینک کے رحم و کرم تھا۔ شعیب احمد، ڈاکٹر مبشر حسن، غلام اسحاق خان، ڈاکٹر محبوب الحق ، شوکت عزیز اور اسحاق ڈار کے بعد جو نیا مسیحا آیا ہے۔ اس کا نام اسد عمر ہے۔ نئے میسحا نے آ تے ہی خوشخبری سنائی ہے کہ کشکول توڑنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرض کی جگہ’’ بیل آوٹ پیکج ‘‘ لینگے۔ یہ مہنگے سود پر آنے والے قرض کا خوب صورت فیشن ایبل نام ہے۔ ایک اور خوش خبری یہ ہے کہ سعودی عرب سے 10 مہینوں تک تیل بھی قرض پر ملا کر یگا۔ گفتار غالب میں تصرف کرکے ہم گنگنا بھی سکینگے ’’ قرض کی لیتے تھے تیل اور کہتے تھے کہ ہاں‘‘ آگے رنگ لانے والی بات ہے۔ اُس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ رنگ میں بھنگ ڈالنا ہماری عادت نہیں۔ ہمارے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اب ایک ہی بات پلے باندھنی ہے کہ ’’ مہنگائی سے گھبرانا نہیں‘‘ یہ بادِ مخالف کی طرح ہمیں اونچا اڑانے کے لئے آتی ہے۔