خود کشی – ایک نظم
دیدار علی جعفری
بہت مشکل ہے
آج خود کو لفظ کے در پہ
جیسے بھیک مانگتے دیکھ رہا
یہ وجود کتنا سیسک رہا
کون اس بدبخت کو
خیرات وقت کردے
سنے مجھ کو
جاں لینے کی کوشش میں
یہ بھی دیکھ لے مجھ میں
روز کنتا مرتا ہوں
جی لینے کی حسرت میں
روز چلنا پڑتا ہے یوں مگر تنے تنہا
وحشتوں کے جنگل سے
نفرتوں کے کھیتوں سے
کیا ہیہی حقیقت ہے ؟
ہاں یہی حقیقت ہے
روز تم مرو تھوڑا روز ہم مرے تھوڑا
داستان جو باقی ہے ختم ہونا باقی ہے
جاں لینے کی ساعت کو
اب کہاں سے لے آیں ؟
جاں لینے کی ساعت تو
جان جانے کیبعد
سب کوخوب آتی ہے