خالد چاند تھا
زندگی کو خواب کہنے والے سچ کہتے ہیں ۔اس کو ناٹک کہنے والے بھی سچے ہیں ۔قرآن نے اس کو متاغ غرور کہا ۔۔رسول مہربان ﷺ نے اس کو مچھر کے پر سے بھی بے حیثیت فرمایا ۔پھر سیانوں کے نزدیک اس کی حیثیت کیا رہتی ہے ۔۔زندگی کے ناٹک میں ایک اچانک کردار موت کا ہے جو سارا سین یکدم ڈراپ کرتا ہے سارے کردار غائب ہوجاتے ہیں اور سکرین کے سیاہ پردے پر چند ٹمٹماتے روشن ذرے آنکھ مچولیاں کھیلتے نظر آتے ہیں ۔زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب۔۔۔ موت کیا ہے انہی اجزا ء کا پریشان ہونا ۔۔لیکن زندگی پیاری ہے ۔۔اس کا عارضی ہونا اپنی جگہ مگر بعض دفعہ جب یہ ساتھ چھوڑتی ہے تو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس کی جدائی کے زخم سہتے سہتے اس دنیا سے ہی جانا پڑ تاہے ۔زندگی درد دیتی ہے ۔آنسو اور غم دیتی ہے ۔سانحہ دیتی ہے تو انسان اس کی دی ہوئی خوشیاں ایک ثانیے کو بھول جاتا ہے ۔۔اور بے زار ہوتا ہے کہ زندگی نے خوشیاں کیوں دی ۔اگر اس کی وفا یوں تھی ۔۔زندگی میں کچھ سانحے ناقابل برداشت ہوتے ہیں ۔۔خالد بن ولی کی اچانک جدائی کا سانحہ ناقابل برداشت ہے ۔۔۔خالد ایک احساس ،ایک خوشبو اور ایک حسین امتزاج کا نام تھا ۔ایسا لگتا کہ گلشن انسانیت میں ایک پھول کھلا ہے ۔اس کا رنگ سب سے الگ ہے ۔ اس کی خوشبو سب سے الگ ہے ۔اور اس کی موجودگی سب سے جدا ہے ۔اس کے چاند چہرے اور چمکتی آکھیوں سے شرافت کے سوتے پھوٹ پھوٹ کر یہ پیغام دے رہے ہوتے کہ دنیا بھی خوبصورت ہے ۔زندگی بھی خوبصورت ہے ۔تم سب خوبصورت ہو اور میں بھی خوبصورت ہوں ۔۔باقی سب خوبصور ت ہوں کہ نہ ہوں وہ خوبصورت تھا اور بہت خوبصورت تھا ۔۔اس کے ا خلاق پہ سب کورشک آتا ۔اس کی کرشماتی شخصیت میں ایک جادو تھا ۔۔اس کے نام لینے سے تن بدن میں ایک خوشبو پھیل جاتی ۔ایک حسین احساس رگ و پئے میں سرایت کر جاتا ۔۔اس کے چہرہ انور پہ حسین مسکراہٹ پھیلی رہتی ۔اس کی آنکھیں پیار کا پیغام دیتیں ۔۔اس کے الفاظ ڈھارس بندھاتے۔اس کے پر خلو ص دل کی دھڑکنیں محسوس کی جاتیں کہ وہ پیار کا پیغام دے رہا ہے ۔۔خالد چترال کا ایک قابل فخر فرزند تھا ۔۔ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک اعلی زمہ دار آفیسر تھا ایک عظیم باپ کا بیٹا تھا ۔۔سر زمین چترال اپنے ایک عظیم بیٹے سے محروم ہو گئی۔ اقبال نے کہا تھا ۔۔ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا ۔۔سر زمین چترال کو بھی سالوں بعد ایسا بیٹا ملا تھا ۔۔ایسا دیدہ ور جس کی مثال نہیں ملتی ۔۔آپ کی شخصیت کے کئی پہلو تھے آپ ایک اعلی پائے کے شاعر ادیب تھے چترال کے پہلے نوعمر صاحب دیوان شاعر تھے ۔۔آپ کے شعری مجموعے کا نام ’’ہردیان اشٹوک‘‘ کا ترجمہ یار لوگ ’’دلوں کا کھیل ‘‘ کرنے لگے تو میں نے ’’دلوں کا میل‘‘ کیا۔۔ یہ سن کر وہ مسکرا کر میرے سینے سے لگ گیا اور کہا ۔۔’’سر !تیرا جواب نہیں ‘‘ میرا جواب خالد کی محبت تھی ۔۔خالد ایک روایتی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ وہ چترالی روایات کے امین تھے ۔۔اتنے بڑے آفیسر بنے لیکن خالد ہی رہے ۔۔ملنسار ۔۔خاکسار ۔۔ہنس مکھ ۔روشن چہرہ ۔۔شریف النفس ۔۔مہذب و محترم ۔۔بچوں کا شفیق ۔۔بڑوں کے سامنے سر جھکانے والا ۔بہن بھائیوں کی انکھوں کا تارا ۔۔رشتہ داروں کا مونس و غم خوار ۔۔دوستوں کی زندگی ۔محفلوں کی جان ۔۔ماتختوں پر سایہ ۔فرائض کی ادئیگی میں کھرا ۔۔اس کے اوصاف گننا محال ہے ۔خالد اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال تھے ۔۔اس کو انسانیت سے پیار تھا ۔۔ہر ایک کو یوں لگتا کہ خالد کو اس سے پیار ہے ۔۔خالد کے دل میں کسی کے لئے نفرت نہیں تھی ۔۔اس کے الفاظ شرین اور لہجہ دلکش تھا ۔وہ ہنس کر بات کرتے تو غالب یاد آتا اور اس کے یہ الفاظ بھی۔۔۔ کہ بات پر واں زبان کٹتی ہے ۔۔۔وہ کہے اور سنا کرے کوئی ۔۔خالد جتنی خوبصورت شخصیت اور اخلاق کے مالک تھے اتنے خوبصورت شاعر تھے ۔۔ان کی غزلوں کی مٹھاس سماعت سے نہیں مٹتی تھی۔وہ خوبصورت الفاظ کے لڑی پروتے ۔۔وہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ شاعر تھے ۔۔ان کے بلند اور حسین خیالات الفاظ کا جامہ پہن کر خود کاغذ پہُ اترتے ۔ان کی شاعر ی پڑھتے ہوئے خیابان خیابان ارم نظر آتا ہے ۔۔وہ الفاظ کے جادوگر نظر آتے ہیں ۔۔اس کا جوان مرگ ہونا کھوار ادب کے لئے سانحہ ہے ۔۔خالد کی زندگی کے اتنے سارے پہلو ہیں کہ ان پر کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔۔ایسا لگتا ہے کہ وہ دنیا میں زندگی نام کے اس ڈرامے کو حسین بنانے آئے تھے ۔۔اس میں رنگ بھرنے آئے تھے ۔۔وہ ایک بے مثال کردار تھے ۔۔یقیناًاس کی موجودگی میں یہ زندگی بہت حسین لگتی تھی ۔۔رنگ بھرنے کے لئے وقت بھی کم چاہئے ہوتا ہے ۔۔وہ بہت کم وقت لے کے اس فانی دنیا میں آئے ۔۔اس کو خوشبو سے بھرکر گئے ۔۔وہ بچپن میں پھول تھا جوانی میں حسین چمن بن گیا تھا ۔۔اس کی شاہ سواری سے جولان گاہ سجتے اس کی نعمہ سرائی سے بلبلیں چہکتئیں ۔۔اس کے عظیم کردار سے ہر ایک مرغوب ہوتے ۔۔اس کی آفس ٹیبل سے سچائی کی کرنیءں پھوٹتیں ۔۔وہ ایک ریفرنس بن گئے تھے ۔۔موت بر حق ہے۔۔ سب کو اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے ۔۔اگر کوئی بھر پور زندگی گزار کے جائے تو اس کی موت بھی زندگی بن جاتی ہے زمانہ اس کو یاد کرتا ہے ۔اللہ اپنے عظیم بندوں کو امتحان سے گزارتا ہے ۔۔خالد کے خاندان پر اس کی جدائی کا امتحا ن آیا ہے ۔۔مگر خالد کی جدائی پر سرزمین چترال کا ذرہ ذرہ سوگوار ہے ۔۔خالد سب کا تھا اور سب کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ۔اللہ اس آزمائش سے سب کو نکالے ۔۔خالد کے سسر شہزادہ میجر(ر) شمس صاحب کے اکلوتے بیٹے رضوان کی اچانک انتقال کے وقت جب میں پہنچا تو شہزادہ صاحب نے مجھے سینے سے لگا کر کہا ۔۔میرے شفیق استاد کے بیٹے رضوان مجھے اکیلا چھوڑ گیا ۔۔اس مرد آہن پہ یہ دوسری کڑی آزمائش ہے ۔۔اللہ اپنے عظیم بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے ۔اور اس امتحان میں صبر ہی کامیابی کا واحدذریعہ ہے ۔۔خالد کی نماز جنازہ میں کھڑے میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں عبدالوالی خان کے سامنے کہیں نہ جا سکوں گا کیو نکہ وہ اپنی گرجدار آواز میں ’’خالد ‘‘ کہے گا تو میں بھسم ہو جاوء نگا ۔۔اس کو خالد سے بے مثال محبت تھی ۔۔اللہ اس کو یہ غم سہنے کی ہمت دے ۔۔دنیا دو دن کی ہے ۔۔ہم سب خالد کے پیچھے اپنی اپنی باری پہ چلے جائیں گے ۔۔اللہ خالد کو جنت الفردوس میں مقام خاص عطا کرے ۔۔ہمارا اصلی ٹھکانہ وہی ہے ۔۔