کالمز

نئے فورس کمانڈر کا دورہ دیامراور توقعات

ضلع دیامر عسکری اداروں کیلئے بہت سارے حوالوں سے اہم ہے جن میں سے محب وطن یک رنگ آبادی کاعلاقے میں موجودگی ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہے،اس لیئے ہر نئے آنے ولا عسکری کمانڈر ضلع دیامر کا نہ صرف دورہ کرتا ہے بلکہ عوامی نمائندوں اور مقامی جرگے کے ممبران سے ملاقاتیں اور گفت و شنید کے بعد علاقائی امن کیلئے بہتر تجاویز کے ذریعے افہام و تفہیم اور فوج و عوام کے مابین اعتماد سازی کے ماحول کو پروان چڑھانا بھی مقصود تصور کرتا ہے،روایت کے مطابق نئے فورس کمانڈرگلگت بلتستان میجر جزل احسان محمود نے بھی پیرکے روز چلاس کا دورہ کیا ،ان کے ہمراہ اعلی فوجی و انٹلی جینس کے عہدیداران بھی موجود تھے،سرکٹ ہاوس چلاس میں عوام،جرگہ،نوجوان اور صحافیوں سے گھل ملتے ہوئے فورس کمانڈر نے اپنائیت کا احساس دلایا ۔ضلع دیامر اپنی تاریخ ،ثقافت اور دیگر کئی حوالوں سے صوبہ کے دوسرے علاقوں سے منفردہے۔پریوں کے دیس کہلایا جانے والا یہ علاقہ اپنے مخصوص قبائیلی و مذہبی رحجانات رکھتا ہے جس کی کوکھ سے بعض دفعہ منفی محرکات جنم لیتے ہیں اور اسی سے تعلیم مخالف ،اجتماعی شعور کا قتل اور انتہا پسند رویے سامنے آجاتے ہیں جو معاشرے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں،ریاستی اداروں اور حکومتوں کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ تعلیم ،تربیت ،ترقی اور قبائیلی و مذہبی رویوں کے مابین توازن لانے میں مخلصانہ کردار ادا کرتے ہوئے مقامی ثقافت کو تعلیم اور ترقی سے منسلک کریں تاکہ عوامی سطح پر اس عمل کی پذیرائی ہو اور تمام لوگ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔بدقسمتی سے آج تک اس طرح کی حکمت عملی نہیں اپنائی جاسکی ہے کہ جس کے تحت عوام کو مخصوص و محدود دائرے سے باہر نکال کر گلوبل سوچ کی سطح پر کھڑا کیا جاسکے۔دیامر کے نوجوان صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی طور دوسرے صوبوں سے کم نہیں مگر پلیٹ فارم اور درست رستے کی عدم فراہمی ان کے رستے میں رکاوٹ ہے۔یہ بدقسمت ضلع آج تک کسی بھی حکومتی اسٹیک ہولڈرکا توجہ حاصل نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی کسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔یہی وجہ ہے مقامی آبادی بھی احساس کی دولت سے محروم ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ دیامر کے رہنے والے بھی دیامر کی مٹی کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں سمجھتے ہیں ۔فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جزل احسان محمود کا خطاب اس سلسلے میں بہت اہم بھی ہے اور مذکورہ خطاب کے ایک ایک لفظ کو عمل کی پوشاک پہنانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اب گفتار کا زمانہ گزر گیا ہے کردار اور عمل کے ذریعے سے ہی عوامی دلوں پر حکمرانی کی جاسکتی ہے ،فورس کمانڈرنے صحافیوں کے مشکلات کا ذکر کیا اوریوتھ مومنٹ کے کردار کو بھی سراہا جو کہ قابل قدر اقدام ہے ،جبکہ پریس کلب اور یوتھ مومنٹ کیلئے مالی تعاون اور صحافیوں کی مفت علاج کا اعلان کرکے ایک ناقابل فراموش روایت کا آغاز کیا جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔اس کے علاوہ دیامر کے عمائندین جرگہ اور علماء کرام کی امن کوشیشوں کو سراہتے ہوئے نیک جذبات کا اظہار کیا ۔فورس کمانڈر نے نوجوانوں کو ملکی ترقی اور دفاع کا سرمایہ بھی قرار دیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان ہی آنے والے وقتوں کے معمار ہیں ان کے دم قدم سے مستقبل کی بنیاد کھڑی کی جاسکی گی، مگر پورے گلگت بلتستان بالخصوص ضلع دیامر اس حوالے سے کافی محروم ہے دیامر کے نوجوان تعلیم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مواقعوں کی کمی کے شکار ہیں۔کوئی بھی اچھا تعلیمی ادارہ آج تک دیامر میں پروان نہیں چڑھ سکا ہے ، سیاسی قیادت کی عدم توجہ سمیت ریاستی اداروں کی ضلع دیامر میں تعلیمی حوالے سے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اُٹھانا افسوس ناک پہلو ہے ۔ضلع دیامر کی علمی و تعلیمی صحرامیں ایک ہی کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو کہ قابل فخر بات ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چار برسوں سے کسی بھی حکومتی اسٹیک ہولڈرنے سنجیدگی سے اس ادارے کی تعمیر، بڑھوتری اور نشونما کا نہیں سوچا ہے ، گزشتہ چار برسوں سے کسی عارضی عمارت میں چلنے والا یہ کالج اپنے دامن میں دیامر کے پچاس سے زائد بڑے دماغ رکھتا ہے ، اس کالج کا فیڈرل بورڈ کے تحت سالانہ نتائج ملک کے مایہ ناز ادارہ( برن ہال) سے بہتر ہے ۔ضلع دیامر کا سوفٹ امیج ہی یہ ادارہ ہے اور اگر دیامر میں کوئی بڑا سماجی، علمی، انقلاب رونما ہوگا تو بھی اسی ادارے سے ہوگا۔اس کے علاوہ پبلک سکول اینڈ کالج چلاس بھی حکومتی توجہ کا منتظر ہے ۔گزشتہ چار سالوں سے دیامر میں آنے والی کسی بھی بڑی حکومتی و ریاستی شخصیت نے ان تعلیمی اداروں کا دورہ تک کرنا گوارا نہیں کیا ہے جس سے ان کی تعلیم، دیامر کے نوجوان نسل اور ان کے مستقبل سے غیر وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔فورس کمانڈر گلگت بلتستان نے بھی کیڈٹ کالج کا دورہ نہیں کیا اُمید ہے کہ اگلا دورہ وہ دیامر کے تعلیمی اداروں کا کریں گے ۔تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ چلاس شہر کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے تھرٹ الرٹ جاری ہونے کے بعد بھی معقول سیکورٹی کا بندوبست ہنگامی بنیادوں پر نہ ہونا تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونے کی علامت ہے ۔فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جزل احسان محمود سے گزارش ہے کہ اگر دیامر کی نوجوانوں سے وہ لگاو رکھتے ہیں اور فوج نوجوانوں کے ساتھ کھڑی ہے تو دیامر کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور ساتھ ہی کیڈٹ کالج چلاس کے تمام مسائل ہنگامی بنیادوں پر دور کرتے ہوئے کالج کا خصوصی دورہ کو بھی یقینی بنائیں۔میجر جزل احسان محمود ویسے بھی انسان اور علم دوست شخصیت ہیں ،اُمید ہے کہ وہ اس اہم نوعیت کے مسلے پر فوری طور نوٹس لیں گے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button