ہنزہ میں شاہراہ قراقرم توسیعی منصوبے کا معاوضہ، اور مسلہ کشمیر
شرافت علی میر
پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ مسلہ کشمیر ہے۔ تمام وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ، اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسلہ اُٹھاتے ہیں۔ کشمیر کو پاکستان کا "شہ رگ” کہا جاتا ہے، اور گزشتہ سات دہائیوں سے اس شہرگ پر کسی اور کا قبضہ ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جس دن کشمیر کا مسلہ ہوگیا، پاکستان کے تمام بڑے مسائل حل ہو جائیں گے۔
ایک ایسا ہی مسلہ ہنزہ میں گزشتہ ایک دہائی سے چل رہا ہے۔ صدر پاکستان آئے یا وزیر اعلی، چیف جسٹس، یا چیف سیکریٹری، یا پھر اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار وپٹواری، علاقے کے عمائدین شاہراہ قراقرم کے لئے استعمال شدہ زمین کا معاوضہ مانگتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ دس سالوں سے جاری ہے۔ پاکستان کے صدور، چیف جسٹس اور دیگر تمام اعلی حکام اس معاملے کو حل کرنے میں بظاہر ناکام ہوے ہیں۔ مسلہ کشمیر سے اس معاملے کی ایک اور مماثلت اس لئے بھی کہ یہ سڑک نیا پاکستان کے شہ رگ، سی پیک، کا مرکزی اور بنیادی حصہ ہے۔ اس سڑک کے بغیر سی پیک کی کامیابی کا تصور محال ہے۔
مسلہ یہ ہے کہ شاہراہ قراقرم کی توسیع کا منصوبہ مشرف دور میں شروع کیا گیا۔ لوگوں کے کھیت، کھلیان، درخت، کاٹے گئے، اور قانون کے مطابق معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔
ہنزہ والے سی پیک کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ اس کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن آج ہنزہ کے باسی ہر آنے والے کے سامنے جھولی پھیلا کر اپنے حق کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں، کیونکہ جب تک معاملہ بگڑے نہیں، ہماری حکومت اور انتظامیہ ہوش میں نہیں آتی۔
مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، اور پھر نواز شریف کی، اور اب عمران خان کی، لیکن چاروں حکومتیں یہی بنیادی حق پوری کرنے میں ناکام ہوے ہیں۔
ہنزہ تعلیم اور صحت کے میدان میں بہت آگے ہے۔ کھیل کھود اور موسیقی سمیت فنون لطیفہ میں بھی بہت ترقی ہوچکی ہے۔ ملک بھر کے سرکاری اداروں اور این۔جی۔اوز میں بھی ہنزہ کے بیٹے اور بیٹیاں اعلی عہدوں پہ فائز ہیں، لیکن سیاست میں آگے آنے والے موثر ثابت نہیں ہوے ہیں۔ اہم عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود بھی ہنزہ کے سیاسی نمائندے اپنے علاقے کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوے ہیں۔
ایک نوجوان بابا جان سے امیدیں وابستہ تھیں، کیونکہ وہ کسی حد تک سیاست کے داو بیچ کو سمجھتا تھااور وہ عوام کے بنیادی مسائل کی بات بھی کرتا تھا۔ جب اس نے عوامی طاقت کااستعمال شروع کیا تو انتظامہ نے ان کے خلاف سازش کی اور متعدد ساتھیوں سمیت جیل بھیج دیا، اور ان پر دہشتگردی کے دفعات بھی لگائے گئے۔ جمہوری حق کے استعمال کا یہ انجام دیکھ کر لوگوں نے سڑکوں پر آنا چھوڑ دیا۔
لیکن کب تک؟
لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ عوامی پریشانیاں بحران کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ جب مسائل اور فرسٹریشن کا یہ لاوا پھٹے گا تو اس غبار اور سیل آتش کی کوکھ سے کونسی تباہیاں نمودار ہونگی، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
نہ جانے کیوں انتظامیہ اور حکومت اس معاملے کو الجھا کر مسلہ کشمیر کی طرح طویل کر رہے ہیں۔ ہنزہ کے باسی ملک کے وفادار اور دفاع وطن کے لئے جانبازی کے لئے ہمیشہ تیار ہیں۔ ان سے غیروں جیسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟