شمع اور آنسو
ٍشمع کی آنکھوں میں جب افسردگی اتر آتی ہے تب بھی خوبصورت لگتی ہیں ۔ان میں چمک اتر آئے تو پھر اورعضب کی خوبصورت ہوتی ہیں ۔شمع کی زندگی بھی کیا عجیب ہے۔۔ خود جلے تب بھی دوسروں کو روشنی دیتی ہے ۔اس کے ارد گرد اس کی کرنیں پھیل رہی ہوتی ہیں ۔بے شک جلتی ہے لیکن اس کے آنسوؤں سے کتنوں کی زندگیوں میں موجود اندھیروں کو موت آتی ہے ۔اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔۔ ویرانیاں آبادیوں میں اور بنجرے پن شادابیوں میں بدل جاتی ہیں ۔اس کو ایسا لگتا ہے کہ سب کے چہروں کی خوبصورتیاں اس کے چہرہ انور پہ آکے جلوہ دے رہی ہیں ۔۔وہ خوبصورت ہے ۔۔اس لئے کہ وہ دل سے خوبصورت ہے ۔اس کے سینے میں اٹھتے ہوئے جذبات پاکیزہ اور خوبصورت ہوتے ہیں ۔یہی خوبصورت جذبات پہلے ارد گرد کو پھر ماحول کو پھر ساری دھرتی کو خوبصورت بناتے ہیں ۔۔اس نے کبھی کسی کا برا سوچا ہو یہ ممکن نہیں لگتا ہے کیوں کہ وہ روشنی کا ایک حوالہ ہے ۔اس لئے اس کی فطرت میں اچھائیاں اور روشیاں ہیں ۔اس کی زندگی کا مقصد محفل کو زعفران زار بنانا ہے ۔وہ جس محفل میں ہو تو وہ محفل بھری پوری لگتی ہے نہ ہو تو تنہائی کا احساس ستاتا ہے ۔۔شمع کے آنسو بہت انمول ہیں ۔جل کر روتی ہے اور رورو کر زندہ رہتی ہے ۔اس پہ رنگ و بو پھول خوشبو سب نثار ہوتے ہیں ۔بہار حزان اس کی معیت کے محتاج ہیں ۔اس کی زندگی کو گرمی سردی کی پرواہ نہیں ۔بس جہان اندھیر اہووہاں اس کی ضرورت پڑتی ہے ۔اس کی آمد پہ اندھیرے کے ساتھ افسردگیاں ،مایوسیاں ،خزن و ملا ل ،رنجیدگیاں ،تلخیاں ،ناراضگیاں ،نفرتیں عداوتیں اور سب برائیاں ختم ہو جاتی ہیں۔اس کا کام دوسروں کوروشنیوں سے روشناس کراناہے ۔ایک دن اس کے سامنے ایسا ہوا کہ کسی آنکھ سے آنسو گرے ۔ یہ گرتے آنسو شکست اور دھائی کے تھے ۔۔یہ دیکھ کر شمع کو جلا ل آگیا ۔اس نے آنسوؤں سے کہا کہ بے وقت گرتے ہو جن آنکھوں سے تم گر ر ہے ہو اس سمے ان سے چنگاریاں اٹھنی ضروری ہیں ۔الفاظ کے گورکھ دھندے ۔بے سرے نالے ۔۔بے وجہ دھائیاں۔موت جیسی خاموشیاں ۔۔کبوتری پروآز۔۔فرومائیگی ۔اور خود ساختہ آشفتہ سریاں مزہ نہیں دیتیں ۔پلٹ کر جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا پڑتا ہے ۔رگوں میں دوڑتا ہوالہو گرم ہوتو زندگی کا مزہ ہے ۔۔زندگی پھلجھڑیاں نہیں ۔شعلوں کی بمبارمنٹ ہے ۔آسماں سے گر کر کھجور میں اٹکنے کا مزہ ہی کیا ہے۔۔ اپنے آپ کو آسمان سے گرنے ہی نہ دیا جائے ۔۔لوہا پتھرسے ٹکرائے تو شعلے نکلتے ہیں ۔آگ اور پانی کا تعلق ہے بھی نہیں بھی ۔۔پھول اور کانٹے الگ الگ دنیائیں ہیں ۔زندگی ایک راستہ ہے جو خار زار ہے ۔۔موتی کو کاٹ کاٹ کے نگین بنایا جاتا ہے ۔۔سونا پہاڑ میں ہے تو خا لص تھوڑی ہے ۔۔کندن بنانے کے لئے آگ میں ڈالنا پڑتا ہے۔بلبل کا گلاب کی شاخ پہ بیٹھ کے رونے سے گلاب کا کیا بگڑے گا۔۔ شمع نے چیخ کر آنسوؤں سے کہا۔۔۔ مت گرو ۔۔یہ تمہارے گرنے کا وقت نہیں ہے ۔۔تم گروگے تو تمہارے منتظر بہت سارے پھول اور چمن سیلاب میں بہ جائیں گے ۔تم سیلاب بن جاؤ گے ۔بہاریں جو تمہاری طرف سفر کر رہی ہیں روٹھ کے راستے سے ہی واپس لوٹ جائیں گی ۔ تمہاری آرزو میں شگوفے جو پھوٹ رہے ہیں وہ ناراض ہوکر مرجھا جائیں گے ۔ٹھنڈی ابشاریں ابلنے لگیں گی۔ دریا کی موجیں خاموش ہو جائینگی ۔مسکراہٹیں جو ہونٹوں پہ پھیل رہی ہیں افسردگیوں میں بدل جائیں گی ۔پہاڑ کی بلندیاں ،دریا کی طغیانیاں ،سمندر کی گہرائیاں بے مغنی ہو جائینگی ۔الفاظ اپنے معنوں سے محروم ہو جائیں گے ۔آواز اپنا سریلا پن کھو دے گی ۔سماعتیں برائے نام رہ جائیں گی ۔سینے دل سے خالی ہو نگے ۔تن بے روح ہو گا ۔بازوؤں سے نہ تلوار اٹھے گی نہ خنجر اٹھے گا ۔۔ہوئیں بے سمت چلیں گی ۔بادل برسنا چھوڑ دینگے ۔۔تم اپنے انجام سے بے خبر کیوں گرتے ہو ۔۔مت گرو۔۔ رک جاؤ۔۔ ۔میرا کام بھی جلنا ہے اور میرا انجام بھی جلنا ہے ۔لیکن مجھے اس بات پہ فخر ہے کہ میرے جلنے سے کیا ہوتا ہے ۔بزم ہستی میں میرا مقام کیا ہے ۔۔اپنا وجود بر قرارا رکھنا سیکھو ۔۔تم اپنا وجود کھو رہے ہو ۔اپنی شناخت مٹا رہے ہو ۔۔اگر تمہیں خواہ مخواہ گرنا ہے تو موتی بن کے گرو ۔ہیرا جس کی کاٹ ناممکن ہو ۔ یہ سب سننے کے بعد یک دم شمع کے سامنے گرتے ہوئے آنسو رک گئے ۔وہ جو پلکوں پہ تھے شگوفے بن گئے ۔ان اکھیوں میں افسردگی کی جگہ زندگی آگئی ۔زندگی سے پیار ایک چمک بن کے اتر آئی ۔پھول کھلے۔۔۔ابشار جھرنے دینے لگے۔ ۔۔بلبلیں چہچہانے لگیں ۔۔۔ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔۔ ۔بادل برسنے لگے ۔۔۔کائنات کی خوبصورتیاں سمجھ میں آنے لگیں ۔۔سینوں میں دل دھڑکنے لگے۔۔ ۔چہروں پہ مسکراہٹیں پھیلنے لگیں۔۔ ۔زندگی کے معنی کی سمجھ آگی ۔کہ یہ شکست کھانے کا نام نہیں ۔۔ہمت کا نام ہے ۔اگر شمع جلنے سے ڈرے ۔۔پھول کھلنے سے ڈرے ۔۔پانی بہنے سے ڈرے ۔۔ہوا چلنے سے ڈرے ۔بادل برسنے سے ڈرے ۔بلبل نغمہ سرائی سے ڈرے ۔۔۔تو ان سب کا وجود ہی ختم ہو جائے گا ۔۔اس لئے جس کو جینا ہے شمع کی طرح جیئے۔۔بیشک خود جلے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دوسروں کو روشنی دے۔۔