کالمز
شنگریلا
تحقیق و تحریر: شریف ولی کھرمنگی
بیجنگ
بیجنگ
خوبصورتی کو بلا رنگ و نسل دنیا میں بسنے والے ہر انسان کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر حسن کو زوال حاصل ہے۔ اگر ایسی حسن ہو جو لازوال ہو تو اہل دل کیلٸے وہ مثال بن کر رہ جاتی ہے۔ "شنگریلا” حسن و جمال ہی نہیں بلکہ اس سے تمام تر زوال اور براٸیوں سے مبرا حیات جاودانی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ جہاں ایسی جوانی ہے جس میں بڑھاپے کا تصور نہیں۔ ایسی دنیا جہاں پیار و محبت ہے مگر دشمنی اور رقابت کا وجود بھی نہیں۔ جہاں دنیا جہان کے مساٸل کا گزر تک نہیں۔ قدرت کے حسین شاہکاروں میں ”جنت“ ایسی ہی آٸیڈیل جگہے کا نام ہے جسے صدیوں قبل سے دنیا میں شنگریلا کے تصور میں ڈھالا گیا۔ اہل گلگت بلتستان کیلٸے خصوصا اور پاکستان میں عموما شنگریلا سکردو میں موجود اس مسحور کن علاقے کا نام ہے جو سدپارہ کے پر فضا مقام پر ایک خوبصورت جھیل کے اردگرد پھیلی ریزورٹ کی شکل میں سن 1980کی دہاٸی میں متعارف ہوا۔ لیکن در اصل ”شنگریلا“ ایک عظیم تاریخ اور تصوراتی فلسفہ اپنے اندر سموٸے دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے۔ اس تصوراتی فلسفے کو انگریز ناول نگار James Hilton نے 1931 میں اپنے شہرت یافتہ ناول The Hidden Horizon میں Kunlun Ranges کی وادیوں کے ایک دلفریب علاقے کے طور پر بیان کیا جو انہوں نے علاقہ تبت ، گلگت بلتستان، چین اور تاجکستان کے انہی علاقوں کے طویل دورے کے بعد اس تصوراتی جنت اور خطے کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر ضبط تحریر میں لایا۔ مسحور کن خوبصورتی کے حامل سدپارہ سکردو میں موجود شنگریلا ریزورٹس کا نام بھی اسی ناول کے حوالے سے رکھا گیا۔
135 قبل مسیح کے چائنیز تاریخ دان Sima Qian (سیما چیان) پہاڑی سلسلے Kunlun Ranges کو مشہور Huan He (چین کے سب سے بڑے دریا جسے انگریزی میں Yellow River کہتے ہیں) کے شروع ہونے کے جگہے کو قراردیتے ہیں۔ ان کے مطابق قدیم چین میں Han Dynasty کے بادشاہ Wu نے اس دریا کے شروع ہونے والی جگہے کو ڈھونڈنے کیلئے اپنے لوگوں کو بھیجا جنہوں نے اس علاقے کوKunlun کے نام سے پکارا۔ جبکہ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ Kunlun Ranges تاجکستان کے پامیر سے لیکر شنجیانگ صوبہ کے Tarim Basin کے علاقوں کو کور کرتے ہوئے چینی علاقہ Qinghai اور تبت تک پھیلا ہوا ہے۔ جوکہ ایشا کے بڑے پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے۔ (قدیم سلک روڈ کو دریافت کرنیوالے سیما چیان کا یادگار دیوقامت مجسمہ چین کے قدیم دارالحکومت، چھانگ آن Chang’an جسےاب شی آن Xi’an کہا جاتا ہے،مغربی چین میں Shaanxi صوبے کا دارالحکومت ہے، اور Hanjong شہر کے درمیان موجود ہے۔ 2015 میں یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی طور پر وہاں دوروزہ سالانہ تقریب میں حصہ لینے کا موقع ملا)۔
شنگریلا کے تصوراتی جنت کا مطالعہ کریں تو قدیم تاریخ میں سات ایسی جگہوں کا ذکر ملتا ہے جو کہ آسائش، خوش حالی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے، تبتی انہیں Nghe-Beyul Khembalung کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جبکہ تبتی بدھ مت کی شاخ Nyingma کے مطابق ان سات خوش حال شہروں کو بے یول Beyul کہتے ہیں جہاں پر بدھ مت کے پیروکاروں کو ان کےآقا Padmasambhava پناہ دیتے ہیں۔ انکے مطابق یہ جگہیں روحانی اور جسمانی زندگی کا درمیانی یا ملن کی جگہیں بھی ہیں۔ ان بیان کردہ خصوصیات کے مطابق اصطلاحا ہم شنگریلا سمیت ان سات شہروں کو شداد کے بہشت سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیں۔شداد کی بہشت ایک تعمیر شدہ علاقہ تھا جسے بہشت برین کی نقل کے طور پر تعمیر کروایا گیا البتہ بدھ مت کی قدیم داستانوں اور چائنیز ادب شنگریلا کے باسیوں کو ہمیشہ زندہ اور خوش حال رہنے والے لوگ گردانتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی رہنماٸی بدھ مت کے روحانی پیشوا کرتے ہیں۔ انکی عمریں سینکڑوں سالوں پر محیط ہوتی ہیں اور ہمیشہ جوان نظر آتے ہیں۔
اس خیالی جنت یعنی ”شنگریلا“ سے مشابہ جگہہ یا شہر کا تذکرہ یہودیوں کے ہاں بھی موجود ہے۔ ان کے مطابق اس شہر کا نام Luz ہے جس میں لوگ خوشحال اور پر آسائش زندگی گزارتے ہیں اور موت کے فرشتے کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ Luz جس خطے میں موجود ہے اسے Kushta کہتے ہیں اور اسکی اصل جگہے کے بارے میں یہودیوں کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ بائبل کے مطابق اسکو جنت کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اسی لئے قائم کیا گیا کیونکہ انکے مطابق Luz شہر اسی خطے میں ہے، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ جب یہودی Luz کو بیان کرتے ہیں تو ”شنگریلا“ سے اسکی خصوصیات بتاتے ہیں۔ جبکہ اسے جنت عدن Heaven of Eden سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ [ پڑھنے میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے : http://www.cityofluz.com/ city-luz/]۔
لداخ اور تبت کے درمیانی علاقے Tsaparang سمیت وادی ہنزہ کو بھی بعض مورخین نے شنگریلا Shangri-La ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے جہاں سے James Hilton نے اپنے ناول سے کئی سال قبل سفر کیا۔ لیکن جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ معتبر جگہ دنیا بھر کے مورخین اور چائنیز مورخین خاص طور پر تبت کے بدھ مت تاریخ میں شنگری لا چائینہ کے Yunnan Provinceکے علاقے کو شنگری-لا ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ اس صوبے کی آبادی زیادہ تر تبتی لوگوں پر مشتمل ہے۔ شنگری-لا کے ہی نام سے مشہور و معروف یہ علاقہ چائینہ کے شہرت یافتہ شہر Kunming سے 659 کلومیٹر فاصلے پر 3000 میٹر سطح سمندر سے بلند اور Qinghai-Tibet Plateau پر جنوب مغرب کی جانب موجود ہے۔ [http://tibetpedia.com/kham-
شنگریلا در اصل Shang-Ri-La یعنی تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔ لفظ Shang تبتی قدیم صوبے U-Tsang سے منسوب ہے، جبکہ چائینیز زبان میں لفظShang علاقہ/ ایریا کی پیمائش کی اکائی/ یونٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک Shang تقریبا ایک ہیکٹر کے برابر ہوتا ہے۔ ری Ri (بلتی/ تبتی) زبان میں پہاڑ کو، جبکہ La لا چھوٹے پہاڑ یا پہاڑی کو کہتے ہیں۔ جس کو عام طور پر بڑے پہاڑوں کے آرپار موجود دو علاقوں کے درمیان گزرگاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چائینیز زبان میں xianggelila کے معنی میں Diqing یا Deqen نامی قدیم تبتی علاقہ اور موجودہ یونان صوبے کے جنوب مغربی علاقے کا ریفرنس ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس علاقے کے پرانے نام Gyeltang یا (بلتی /تبتی نام) Gyalthang جسے چائنیز میں Zhongdian کہا جاتا ہے، روئے زمین پر تصوراتی یا خیالی جنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ Yunnan صوبے کے اسی علاقےGyalthang یا Zhongdian سے ملحقہ علاقہ Jiangthang (چنگ تھنگ )کہلاتا ہے۔ قدیم تبت اور دیومالاٸی داستانوں میں اب بھی بلتستان کے بزرگ افراد چنگ تھنگ کا ذکر کرتے ہیں۔ [http://www.xgll.com.cn/zbdq/ 2018-01/29/content_317581.htm] ۔
ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ شنگریلا بلتی/تبتی زبان پر مشتمل وہ قدیم ترین مگر معروف عام اور آئیڈئیل جگہہ ہے جس کا تذکرہ مختلف زبانوں کے بےشمار داستانوں میں کیا گیا۔ درجنوں فلموں اور ٹی وی شوز میں استعمال ہوا، اور بے شمار نظموں میں بیان کیا گیا۔ امریکا، یورپ، افریقہ، انڈیا سمیت ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کےممالک، ملائشیا، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ سمیت تقریبا ہر خطے کے ممالک میں شنگریلا کے نام سے سینکڑوں لگژری ہوٹلیں موجود ہیں۔ چائینہ میں بھر میں شنگریلا کے نام سے ساٹھ سے زیادہ ہوٹلز اور ریزورٹس قاٸم ہیں۔ اسی نام سے بے شمار ویڈیو گیمز بنے، سیاست دانوں اور سائنسدانوں نے اپنے ریسرچ میں شنگریلا کو استعمال کیا اور مختلف مذاہب میں جب جنت کے تصور کو بیان کیا جاتا ہے تووہاں پر بھی شنگریلا کے خاکے کو ہی ریفر کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مشہور زمانہ امریکی صدارتی خلوت گاہ کیمپ ڈیوڈ کا پرانا نام صدر روزویلٹ کے زمانے میں شنگریلا تھا۔ جبکہ پاکستان خصوصا گلگت بلتستان کے عوام کیلئے جو مشہور شنگریلا ہے وہ سدپارہ جھیل کے اردگرد قاٸم ہوٹل ہی ہے جسے سن 1983 میں بریگیڈئیر اسلم خان نے بنوایا جوکہ 1948 میں ڈوگروں کے خلاف جنگ آزادی لڑنے والے ناردرن سکاوٹس کے پہلے کمانڈر تھے۔ شنگریلا سکردو خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں دنیا بھر سے آنیوالے سیاحوں کیلئے سب سے زیادہ پرفریب جگہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں آنیوالے اس جنت نظیر خطے کی قدرتی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ [شنگریلا سکردو کی تفصیلات:http://www. shangrilaresorts.com.pk/ aboutus.html]۔
حکومت اگر خاطر خواہ توجہ دے تو شنگریلا ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کا ہر خطہ روئے زمین پر جنت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یہاں کے لوگ خوش اخلاقی ، مہمان نوازی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کرائم ریٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وطن کیلئے ہر وقت مر مٹنے کیلئے تیار رہنے والے نوجوان اور بزرگ بڑے شہروں کے گند آلود ماحول سے مبرا ہونے کے ساتھ ساتھ آلودہ سوچ سے بھی پاک و پاکیزہ ہیں۔ انتہائی ملنسار اور دین دار ماحول یہاں دستیاب ہے۔ یہاں کی خواتین کو تمام تر حقوق حاصل ہیں، جو کہ ہرمیدان میں مردوں کے شانہ بشانہ ہر کام اپنی مرضی سے انجام دیتی ہیں۔ کوئی جبر و استحصال نہیں، سہولیات کے فقدان کے باوجود جفاکش ماں باپ پیٹ پر پتھر رکھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں تعلیم کی شرح پورے پاکستان میں سب سے آگے ہے۔ انڈسٹریز نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اگر سیاحت کو انڈسٹری کی حیثیت دیکر مقامی لوگوں کو اس میں مواقع فراہم کریں تو ملک کیلئے کثیر زر مبادلہ کمانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔