یوں تو ہر وہ انسان معذور کہلاتا ہے جو جسمانی طور پر کسی کمی یا زیادتی کا شکار ہو۔ کوئی عضو کم ہو یا کسی عضو میں کوئی مسئلہ ہو۔ لیکن دیکھا یہ بھی جاتا ہے کہ بہت سارے ایسے افراد جو بظاہر جسمانی معذور ی کا شکار ہو وہ تندرست و توانا افراد سے بہت زیادہ حد تک معاشرتی امور میں فعال کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ اقبال عظیم ایک ایسے معلم و شاعر گزرے ہیں جو کہ قدرتی طور پر ساٹھ سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہوگیا۔ اپنی اس جسمانی معذوری کے باوجود بھی اقبال عظیم نے اپنے آپ کو معاشرتی امور سے غافل نہیں ہونے دیا اور ہر معاملے پر انکی گہری نظر تھی۔ان کے ایک شعر نے ہم سب کو وہ سبق دیا کہ میں سمجھتا ہوں یہ رہتی دنیا تک اہل بصارت کیلئے آئینہ کی مانند ہے۔ انکا کہنا تھا، کہ
؎ مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
جو دیدہ ور ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا
موجودہ دور میں منیبہ مزاری ایک ایسی شخصیت کی مالک پاکستانی خاتون ہیں جو کہ بین الاقوامی سطح پر بھی روشناس ہیں۔ اکیس سال کی عمر میں کار اکسیڈنٹ میں چلنے کی سکت چھن جانیوالی اس خوبرو خاتون نے معذوری کو اپنے اوپر غالب آنے نہیں دی۔ مصوری،تحریر و تقریر اور سماجی کارکن کی حیثیت سے انکو 2016 میں مقبول ترین فوربس میگزین سروے میں دنیا کی پر اثر ترین افراد میں شامل کیا گیا۔ چلنے پھرنے کیلئے وہیل چیئر استعمال کرنے پر مجبور ہونے کے باوجودمنیبہ مزاری اس وقت دنیا بھر کے صحت مند اور فٹ نوجوانوں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کے نام سے کون واقف نہیں، جو اس وقت پیرالائزڈمگر ماڈرن فزکس میں بے مثال سائنسدان اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی کےپروفیسر ہیں۔ تقریبا اکیس سال کی عمر سے ہی وہ بھی اپنی بیماری کی وجہ سے لکھنے، بولنے ،چبانے اور پھرآہستہ آہستہ چلنے پھرنے اور دیگر اعضاء کو باقاعدہ استعمال کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اپنے آپ کو معذور کہنے اور معذوری کی وجہ سے قابل رحم سمجھے جانے پر انہیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی، یہی وجہ تھی کہ وہ ابتدا میں کئی سال تک وہیل چیر استعمال کرنے سے نفرت کرتے تھے، مگر انکی مجبوری بن گئی۔ اس وقت بھی مصنوعی طریقے سے صرف آنکھ اور جلد کی حرکات کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانے پر قادر ہیں، لیکن دنیا جانتی ہے کہ ان جیسا باصلاحیت مصنف اور محقق تمام تر اعضاء و جوارح رکھنے والوں میں بھی اس زمانے میں نہیں، اور شاید ہی کوئی ان کے بعد آئے۔
ان کے علاوہ نہ جانے کتنے ایسے ظاہرا کسی جسمانی کمزوری یا معذوری کا شکار افراد ہونگے جو تندرست و توانا افراد سے بڑھ کر باصلاحیت ہوتے اور دنیا کی ترقی و انسانیت کی فلاح کیلئے اپنی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہر حوالے سے تندرست و توانا افراد کی اکثریت اقوام عالم میں اپنی عیش و عیاشی اور ذاتی امور کی حد تک زندگی کے ایام گزار کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ بہت سارے تو ایسے بھی ہیں جن کی صلاحیتیں انسانیت کی تباہی و بربادی کیلئے صرف ہوئے۔
یہی کچھ صورتحال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے۔ جن لوگوں کو ہر طرح سے خدا وند متعال نے علم وحکمت، صحت و تندرستی ، مال و دولت سے نوازا ہے ان کو معاشرتی امور سے یاتو سروکار ہی نہیں ہوتا، اور اگر ہو تو بھی اپنے ہی ذاتی ضروریات کی حد تک یا مفادات کی حد تک محدود رہتے ہیں۔ جبکہ بہت سارے بظاہر جسمانی طور پر کسی مسئلے سے دوچار لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ صرف اپنی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیتے، بلکہ وہ اپنے ساتھ اپنے جیسے دوسرے افراد سمیت پورے معاشرے کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان کے حل کیلئے اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے ہر دس میں سے ایک شخص معذور ہے اور ان میں اکثریت یعنی اسی فیصد کا تعلق ترقی پزیر یا غریب ممالک سے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ جن ترقی یافتہ ممالک میں اسکی شرح بہت کم یعنی پندرہ سے بیس فیصد ہیں وہاں پر ان کی نگہداشت بہتر ہیں اور معاشرے میں برابری کے حقوق اور مراعات وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ ان کیلئے تعلیم و صحت کے خصوصی مواقع فراہم کرتے ہوئے نارمل افراد کی طرح لائف گزارنے کیلئے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جبکہ غریب اور ترقی پزیر ممالک میں معذور افراد کا تناسب زیادہ ہوتے ہوئے بھی نہ ہی خاطر خواہ زندگی گزارنے کیلئے سہولیات فراہم کئے جاتے ہیں، نہ ہی ان کے ساتھ نارمل افراد کیطرح سلوک کیا جاتاہے، جسکے وہ حقدار ہیں۔
بحیثیت مسلمان ، ہمارا ایمان ہے اور یہی ہم سمجھتے بھی ہیں کہ اللہ جسے چاہے کسی بھی امتحان میں مبتلا کردیں،کسی کو جسمانی کمزوری کیساتھ امتحان سے گزارا جاتا ہے اور کسی کو تندرستی عطا کرنا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے، تو اسکے کچھ تقاضے بھی ہیں، وہ بھی امتحان الٰہی میں سے ہیں۔
ہر سال دسمبر کی تین تاریخ کو "معذورافراد کا عالمی دن "کے طور پر منایا جاتاہے اور دنیا بھر میں ایسے افراد کیساتھ اظہار ہمدردی ہی نہیں بلکہ حکومتیں ان کی فلاح کیلئے اقدامات کا عزم اور مختلف امور طے کرتے ہیں۔ جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں سوائے کچھ این جی اوز کے عام طور پر حکومتی ادارے اور عوامی نمائندے اس بارے میں خاطر خواہ اقدامات کرتے نظر نہیں آتے۔ ہمارے اپنے خطے کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سکردو اور گلگت میں دو ادارے اسپیشل ایجوکیشن کے نام سے بنائے گئے جو کہ قابل قدر ضرور ہیں، لیکن یہ سہولیات اور ضروریات سے عاری کمرے اور چند افراد ہمارے معاشرے کے ان افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں۔ ان افراد کیلئے صرف دو ادارے نہیں بلکہ، باقاعدہ تعلیم و تربیت اور فنی مہارتوں کیلئے ادارے چاہئیں، ملازمتوں میں ان کیلئے سیٹیں مختص ہوں، تمام اسکول کالجز میں ان کیلئے سیٹیں مختص ہوں۔ اور احساس کمتری کا شکار ہونے دیئے بغیر ان کو برابری کے شہری حقوق دیئے جائیں۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور یہی دین اسلام کی تعلیم بھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس معاملے میں ریاست ہی نہیں بلکہ ہر فرد ذمہ دار ہے۔ خاص طور پر تعلیم یافتہ اور سماجی درک رکھنے والے افراد جو معاشرتی امور اور ایسے افراد کے مسائل سے آگاہ ہیں وہ اپنا حصہ آگاہی اور ادارتی طور پر بہتری کیلئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔
( نوٹ : یہ تحریر گلگت بلتستان ڈس ایبلٹی فورم کے چئیرمین برادر سید ارشاد کاظمی (گلگت) کی موٹویشن پر ضبط تحریر میں لائی گئی۔ اللہ انکو سلامت رکھے اور کاوشوں کو ثمر آور کرے۔ آمین۔ )