ایک چرواہے کی پریشانی
ڈاکٹرافضل سراج
ہاسپٹل کے مین گیٹ سے انٹرہوتے ہی لیبارٹری کے سامنے ایک مفلوک الحال شخص پر نظر پڑی۔میلے کچیلے کپڑے،بکھرے بال اور چہرے کے تاثرات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ مذکورہ شخص غربت کا مارا اور ستم رسیدہ ہے۔پرچی ہاتھ میں تھامے،سر جھکائے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا یہ شخص اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے گانہ اور سچ پوچھیں تواپنے حلیے اور خدوخال سے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق لگتا تھا۔میں نے جلدی سے گاڑی پارک کی۔ان کے پاس پہنچا اور ان کو مخاطب کرکے آواز دی۔چاچا جی۔۔یکدم میری آواز سن کر وہ سہم سا گیا ۔میں نے شینا زبان میں استفسار کیاکہ چاچا جی آپ کیوں پریشان بیٹھے ہیں؟ کیا میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہوں؟
اس نے نحیف سی آواز میں جواب دیا کہ میں بیمار ہوں۔میں اسے اپنے ساتھ آفس لے آیا۔معائنہ کیا اور ضروری ٹیسٹ کروانے کے بعددوائی تجویز کی۔مگر وہ اپنی صحت کے بارے میں متفکر تھا۔اور بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہاتھا کہ ڈاکٹر صاب مجھے دل کا عارضہ تو نہیں؟ میں نے اس کی تسلی کے لیے ای سی جی بھی کروائی اور دل کے ڈاکٹر سے ان کی رائے بھی لی۔انہوں نے بھی ضروری معائنے کے بعد ان کو بالکل فٹ قرار دیا۔مگر پھر بھی وہ مطمئن نہ ہوا۔اور بضد تھا کہ اس کا دل ٹھیک کام نہیں کر رہا۔میں نے کہا چاچاجی آپ کی ساری رپورٹس ٹھیک ہیں پھر بھی آپ اتنے یقین سے کیسے کہ سکتے ہیں کہ آپ کے دل میں مسئلہ ہے؟
وہ گویا ہوا۔۔صاب میں چرواہا ہوں۔۔بکریاں چراتا ہوں۔۔اور زندگی کا زیادہ تر حصہ پہاڑوں پرگزاراہے۔گذشتہ سال ایک حادثے کے نتیجے میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔۔میرا بیٹا مجھے شہر لے آیا۔اور ایک ڈاکٹر کو دکھایا۔ڈاکٹر نے داخل کیا اوراگلے روز آپریشن کیا۔کچھ دن ہسپتال میں رکھنے کے بعد ڈاکٹر نے گھر بھیج دیا اور میرے بیٹے کو ہدایت دی کہ ان کو مکمل آرام کروائیں۔میرا بیٹا مجھے شہر میں میرے داماد کے گھر پر چھوڑ کرگاؤں چلاگیا۔میراداماد ٹریکٹر چلاتا ہے اور محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔اس نے لمبی سی سانس لی اور رک گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس باباجی کو کیا مسئلہ ہے۔میں اسے ذہنی مریض سمجھنے لگا تھا۔میں نے دریافت کیا کہ چاچاجی اس سب کا آپ کی دل کی بیماری کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس نے قدرے حیرت سے میری طرف دیکھا اورکہا کہ۔۔۔ڈاکٹر صاب تعلق تو بنتا ہے نا۔۔۔یہاں شہر میں ہر چیز ملاوٹ زدہ ہے۔مصالحہ،گھی،سبزیاں،فروٹ اور پانی کوئی چیز خالص نہیں۔یہاں تک کہ سانس لینے کے لیے ہوا بھی خالص نہیں ملتی۔جب سے شہر آیا ہوں روز مسجد سے کسی نہ کسی کی فوتگی کا اعلان سنتا ہوں۔موت کی وجہ پوچھو توکہتے ہیں کہ دل کا دورہ پڑا تھا۔۔صاب آپ کے شہر کی صاف ہوا ختم ہوچکی ہے۔ہرطرف دہواں ہے۔یقین نہیں آتا توصبح فجر کی نماز کے بعدباہر نکل کر دیکھ لیں۔آپ کو آسمان بھی نظر نہیں آئے گا۔صاب۔۔مجھے تو لگتا ہے کہ یہ دھواں میرے پھیپھڑوں کوبھی خراب کرچکاہے۔تبھی میری کھانسی ٹھیک نہیں ہورہی۔
بات تو ان کی بجا تھی۔ہم ناقص خوراک کھاتے ہیں اور آلودہ فضا ء میں سانس لیتے ہیں۔میں نے کہا چاچا جی آپ کے تمام ٹیسٹ ٹھیک ہیں۔ایکسرے بھی نارمل ہے۔آپ کا دل بھی ٹھیک کام کر رہاہے اور پھیپھڑے بھی بالکل صحت مند ہیں۔معمولی سا نزلہ زکام ہے۔دوائی لیں آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔
میں نے محسوس کیا۔۔چاچاجی کی آنکھیں نم تھیں۔اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی۔۔ڈاکٹر صاب۔۔خدا کے لیے اس پرچی پر لکھ دیں کہ میرا داماد مجھے واپس گاؤں بجھوادے۔۔یہاں میرا دم گھٹ رہاہے۔اگر مجھے میرے گاؤں نہیں بجھوایا تو ایک دن میں بھی ہارٹ اٹیک سے مرجاؤں گا۔۔۔
چرواہے کی پریشانی بجا تھی۔وہ اس مصنوعی زندگی سے تنگ آگیا تھا۔وہ شہر کی رونقوں سے اکتا گیاتھا۔سڑکوں پر چیختی چنگھاڑتی۔۔رینگتی دوڑتی۔۔۔رنگ برنگی گاڑیوں سے اس کو بکریوں کا ریوڑ زیادہ دلکش لگتا تھا۔وہ آزاد فضاؤں میں سانس لینا چاہتا تھا۔اور مٹی کی خوشبو سے مطر گھروندے میں سکون سے سونا چاہتاتھا۔اس کو دوا سے زیادہ اس گھٹن سے نکالنے کی ضرورت تھی۔اس لیے میں نے پرچی اس کے ہاتھ سے اٹھائی اور جلی حروف میں لکھ دیا کہ ان کی صحت یابی کے لیے ضروری ہے کہ ان کو واپس گاؤں بھیج دیا جائے۔