کالمز
عمران خان، تبدیلی کے دعوے اور گلگت بلتستان
شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ
گلگت بلتستان عوام گزشتہ سات دہاٸیوں سے پاکستانی حکومت کیطرفسے نافذ مرضی کے غیر آٸینی قوانین تلے ظاہرا پاکستانی شہری کے بطور زندگی گزار رہی ہیں۔ ہمیں پاکستان کی عدلیہ، فنانس اور قانون سازی کے اداروں میں نماٸندگی کا کوٸی حق نہیں، جنہیں مہذب دنیا بنیادی شہری حقوق سے تعبیر کرتے ہیں۔ جدید دنیا میں ان بنیادی حقوق سے محروم خطے بالادست ملک کی کالونی اور عوام کی راٸے کے برخلاف مسلط شدہ نظام کو کالونیل سسٹم کہا جاتا ہے۔ کالونیل سسٹم اس زمانے کا معیوب ترین نظام ہے۔ عالمی اصولوں کے مطابق مسلط شدہ کالونیل سسٹم کی دنیا نفی کرتے ہوٸے ہر خطے کے باسیوں کو حق خود ارادیت کی مسلّم شدہ آزادی حاصل ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کی بیس سے باٸیس لاکھ عوام اس آزادی کے برخلاف ستر اکہتر سال بیتا چکی اور ایک بار پھر نٸے زاویٸے سے عوام کی منشا ٕ کے برخلاف وفاق کیطرفسے ”ریفارم پیکیج“ تیار ہونے جارہا جو کہ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا کے طے شدہ انسانی بنیادی حقوق پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
گزشتہ سال آج کے ہی دن یعنی نو دسمبر 2017 کو ”فاٹا کنونشن اسلام آباد“ میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چئیر مین اور موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب فاٹا والوں کی مظلومیت پر خوب روشنی ڈال رہے تھے۔ خان صاحب کے بقول فاٹا والوں کیلئے آواز بلند کرنے والا نہیں تھا، ان کے لوگوں کو مارا جاتا رہا۔ ان کو حقوق نہیں دیئے گئے۔ بہت ساری دیگر باتوں کیساتھ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا اس وقت 73 فیصد فاٹا کی عوام غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جس کی ذمہ داری پاکستانی حکمرانوں کی تھی۔ فاٹا والے پاکستان کو اپنا سمجھتے رہے لیکن پاکستانی حکمرانوں نے ان کو اپنا نہیں سمجھا۔
اپنی تقریر میں خان صاحب کہتے ہیں کہ 2018 میں اگر فاٹا کو قومی دھارے میں نہیں لایا جاتا تو 2023 تک چلا جائیگا، تب تک وہاں کا نظام کیسے چلے گا؟ فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی وجہ سے تمام تر معاملات طے ہونے کے باوجود حکومت اسکو موخر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انکی طرفسے ڈیمانڈ کی گٸی کہ 2018 کی الیکشن میں فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کریں۔ اگر گورئمنٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، تو پیر کے روز متوقع حکومتی فیصلے کے بعد تحریک انصاف فاٹا عوام کو لیکر ان کے حق میں سڑکوں پر آئیں گے۔ سوئیٹزرلینڈ کی مثال کیساتھ خان صاحب کا کہنا تھا کہ جن کو بھی انصاف نہیں ملتی ہم ان کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔
یہ گزشتہ سال کی بات ہے جب خان صاحب اپوزیشن میں تھے۔ تمام تر حکومتی پالیسیوں پر وہ گھن گرج کر بولتے اور ملک میں انکے انصاف اور تبدیلی کے نعروں عروج پر ہوتا۔ اس وقت جبکہ انکی تقریر کے دوران انکے ہر جملے اور ہر مثال پر سوچتا رہا کہ خان صاحب اتنا کچھ فاٹا کے بارے میں جانتے، سمجھتے اور ان کیلئے سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہیں، تو کیا وہ کئی بار گلگت بلتستان میں آنے، الیکشن مہم چلانے، پوری ایک سیٹ جیت جانے اور ایک سیٹ پر ایک دو ووٹ سے ہار جانے کے باجود بھی اس علاقے کیلئے نہ ہی کوئی ذاتی طور پر پالیسی بیان سامنے لاتا ہے، نہ پارٹی کی کوئی سرگرمی نظر آتی ہے، نہ اخباری بیانات سے نکل کر کچھ کرنے والی مقامی قیادت کو سامنے لاتا ہے۔ نہ زبردستی ٹیکس کے خلاف کئی کئی دنوں کی ہڑتال تک میں ان کی پارٹی کو فعال بناتا ہے۔ تب بھی یقینا خان صاحب کی آواز ملک کی طاقت ترین آوازوں میں سے تھی۔ جو کسی بھی معاملے میں ملک بھر کے عوام اور حکومت کو اس بے آئین علاقے کے مسائل کی جانب متوجہ کرسکتے تھے مگر نہیں کیا۔ قبائلی علاقوں کے حقوق میں ہم ان کی کوششوں کو شاباشی بھی دیتے ہیں۔ وہ کامیاب بھی ہوٸے اور فاٹا کا مرجر ہوگیا۔ پاکستان کو لوٹ لوٹ کر قرض کے دندل میں پھنسانے والوں کو رسوا کرنے پر ہم خان صاحب کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے خاندانی آمریتوں کو پاکستان میں جس طرح سے بے نقاب کیا اس کی مثال پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ فاٹا کے عوام کو انصاف نہ ملنے پران کے حق میں کھڑے ہونے کو وہ دینی فریضہ سمجھتا ہے وہ یقینا گلگت بلتستان کے عوام کے بارے میں بھی سوچتا ہوگا، کیونکہ یہاں پر ان کی جس طرح سے مہمان نوازی کی گئی، جسطرح ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا، ان سب کا ذکر وہ اپنی تقریروں میں بھی بارہا کرتے رہے۔ اب سال گزر گیا۔ وفاق میں خان صاحب کی حکومت ہے۔ مدینے کی ریاست کی بات اور تبدیلی کے نعرے اب بھی گونج رہے ہیں۔ انکے مدمقابل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کرپشن کے الزامات پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے کا سابق وزیر اعلیٰ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہٸے تھا کہ وزیر اعظم سب سے پہلے حقوق سے محروم علاقوں کی عوام کو سنتے۔ ان کے حقوق دیکر تبدیلی کا سفر شروع کرتا۔ انصاف کی فراہمی کا آغاز محروم خطے کو حقوق دیکر کرتا۔ مگر ایسا شاید صرف نعروں میں اچھا تھا انہی کی حد تک رہ گیا۔
ملک کی اعلی عدلیہ میں گلگت بلتستان کے حوالے سے کیس چل رہا ہے۔ چیف جسٹس سمیت لارجر بنچ حکومت اور پارلیمان کو جی بی ایشو پر مقتدر ہونے کی حقیقت کا ببانگ دہل کہہ چکے۔ ابتداٸی طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان عبوری صوبے کی خبریں بھی چلیں۔ عوام سمیت سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماوں نے بھی اس خبر کو خوش آٸند قرار دیا۔ امید کی ایک کرن نظر آنے لگی۔ اخبارات میں بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ مگر ایک بار کابینہ میٹنگ میں جی بی حقوق سے متعلق پواٸنٹ کو بوجوہ معطل کرنے کے بعد گزشتہ دنوں کی کابینہ میٹنگ کے حوالے سے خبریں سامنے آٸیں کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی مخالفت خود وزیر اعظم سمیت ارکین کابینہ نے کی۔ اس کے اگلے روز اٹارنی جنرل نے اعلیٰ عدلیہ میں حکومتی موقف میں واضح کیا کہ گلگت بلتستان کو کوٸی صوباٸی اور آٸینی حیثیت نہیں دینے جارہی۔
اب گلگت بلتستان کی عوام، جوان اور سیاسی قیادت خان صاحب کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہے ہیں۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ کونسی تبدیلی ہے ؟ یہ کہاں کا انصاف ہے جو تحریک انصاف اکیسویں صدی میں بھی بنیادی حقوق دینے میں پس و پیش کرکے نٸے انداز میں کالونیل نظام کو جاری کرانے جارہی۔ ہم سوال کرنے میں حق بجانب ہیں۔ آخر یہ کونسی مدینے کی ریاست ہے جو خان صاحب ایاک نعبد و ایاک نستعین سے شروع کرکے کرنیوالی تقریروں میں بیان کرتے نہیں تھکتے تھے۔
قباٸلی علاقوں کی محرومیوں پر تحریک چلانیوالے اور زبردست تقاریر کرنیوالے خان صاحب کو یاد دہانی کراتے چلیں کہ گلگت بلتستان کے حقوق پر اب تک آپ نے کچھ بھی نہیں کیا۔ آپ کی تبدیلی اور انصاف کے نعرے ہم ٹی وی پر ہی سنتے رہے اور آپ نے ہمارے ساتھ انصاف کرنے کی بجاٸے نٸے گورننس ریفرمز آرڈر کی خبریں چلوا کر نہ صرف احساس محرومی کو مزید بڑھا دیا ہے بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح آٸندہ آپ کی کسی بات پر یقین کرنے اور مورال سپورٹ کیلٸے بھی کوٸی وجہ نہیں رہنے دے رہے۔ آپ شاید بھول رہے کہ یہ زمانہ اکیسویں صدی کا ہے۔ اگر آٸینی حقوق دیکر اسمبلیوں میں نماٸندگی نہیں دیتے، عدلیہ تک رساٸی نہیں دیتے، مالیاتی اداروں میں شامل نہیں کرتے اور مقبوضہ کشمیر جتنے حقوق دینے میں بھی آپکی ”بڑی مجبوریاں“ ہیں تو خطے کو متنازعہ علاقہ ڈکلیٸر کردیں۔ دنیا پر واضح کریں کہ ایک متنازعہ خطے میں ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم رینجز ہیں۔ کے ٹو، سیاچن اور ننگا پربت کی چوٹیاں ہیں۔ سی پیک اور دیامر ڈیم متنازعہ خطے میں بننے جا رہی ہے۔ چین پاکستان کے درمیان گلگت بلتستان نامی متنازعہ خطہ ہے جہاں کے باسیوں کو آٸین کے مطابق شہری نہیں کہلاسکتا۔ خان صاحب کی حکومت گلگت بلتستان کو متنازعہ خطے کے حقوق فراہم کریں۔ یہاں دوسرے صوبوں سے آکر مقیم اور زمینیں خریدنے والوں پر پابندی عاید کریں۔ شاید یہی مدینے کی ریاست کے بھی اصولوں کے مطابق قرار پاٸے اور انصاف کا تقاضا بھی ہو۔ ہمارے لٸے اتنی ”تبدیلی“ کافی ہوگی۔ ہمارے لوگ آپ کے شکرگزار رہیں گے۔ آپ چاہے تو ملک کو سوٸٹزرلینڈ بنا دیں یا اس پر بھی یوٹرن لے لیکر اپنی مدت حکومت پوری کرلیں۔ ہمیں مکمل آٸینی حقوق نہیں دے سکتے تو متنازعہ علاقے کے حقوق ہی دیدیں۔