کالمز

دیامر میں ریفامز کے لیے حاجی ثناء اللہ سے ایک مکالمہ

تحریر: امیرجان حقانی

’’دیامر جی بی کا گیٹ وے ہے۔اس کی ترقی و تعمیر کے بغیر گلگت بلتستان میں ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔گلگت بلتستان کو بچانا ہے تو دیامر کو بچانا ہوگا۔دیامر ہی ہے جو گلگت بلتستان کو پاکستان سے لنک کرتا ہے۔ابتدائی طور پردیامر کو سرکاری سطح پرتعلیم کے میدان میں خصوصی پیکج دینا ہوگا جس طرح ڈاکٹروں کو دیا گیا ہے۔ میری خاندان میں ۱۳ سے زائد جید علمائے کرام ہیں اور اسی طرح ہل علم اور دیگر جدید فنون کے ماہرین کے ساتھ نشست و برخاست کی وجہ سے میری معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ہرفن کے متعلق بنیادی معلومات ازبر کرلیتا ہوں اسے انٹرویوز کرنے میں بھی بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔ مجھے اردو اب اور تاریخ اردو ادب سے لگاو زیادہ ہے بنسبت انگریزی کتب کے،ضرورت کیمطابق انگریزی کتابیں بھی پڑھ لیتا ہوں۔بانو قدسیہ اور نسیم حجازی کو خوب پڑھا،حکیم الامت حضرت اقبال کے کلام سے عملی زندگی کے لیے ترغیب ملتی ہے، اسداللہ غالب کا فلسفیانہ انداز دل کو بھاتا ہے اور فیض احمد فیض کی شاعری سے محظوظ ہوتا رہتا ہوں۔احمد فراز اپنے وقت کے بڑے شاعر ہیں۔گلگت بلتستان کے شعراء کو اکثر سنتا ہوں ۔ ان میں جمشید دکھی کی شاعری بہت ہی اچھی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ظفروقار تاج نے شینا شاعری کو نئی جہت دی ہے۔عبدالغفور چلاسی، عزیزالرحمان ملنگی اور امتیاز شیخی کی شینا شاعری بھی کمال کی ہوتی ہے۔‘‘ یہ الفاظ ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے معروف سیکریٹری حاجی ثناء اللہ کے ہیں جو محکمہ تعلیم کے طویل عرصہ سیکریٹری رہے ہیں۔ اب سیکرٹری ایل جی اینڈ آرڈی اورساتھ ہی زیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کے خصوصی امور کے سیکریٹری بھی ہیں۔

حاجی ثنا ء اللہ نے 1978ء کو ضلع دیامر کے نواحی علاقہ چلاس ہڈور میں حاجی قلم شیر کے گھر میں آنکھ کھولی۔پرائمری تک تعلیم ہڈور میں ہی حاصل کیا۔استور ڈشکن سے مڈل پاس کیا جہاں ماسٹر برکت شاہ سے خصوصی تربیت پائی اور 1994ء کو گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول چلاس سے میٹرک پاس کیا۔جامعہ ملیہ کالج کراچی سے انٹرمیڈیٹ کا ایگزام دیا۔ اور1999ء کو بی کام میں گریجویشن کیا۔

1988 سے 1990تک درس نظامی کی منتخب کتابیں ،چلا س اور ضلع شانگلہ کے مدرسہ اجمیر میں جید اساتذہ سے پڑھیں ، فقہ میں خلاصہ اور قدوری، عربی گرائمر میں صرف بہائی،میزان،نحومیر،زنجانی اور ہدایت النحو وغیر مع اجراء پڑھا۔ ا ن کے علاوہ منطق و فلاسفہ اور حدیث اور عربی ادب کی ابتدائی کتب بھی بالاستیعاب پڑھیں۔دینی علوم میں علم میراث کیساتھ خصوصی شغف ہے۔دینی کتابوں کا مطالعہ ان کے معمولات میں سے ہے ۔قوی حافظہ کے مالک ہیں۔بی کام کرتے ہیں چھ ماہ تک مقابلے کے امتحان کی تیاری راولپنڈی میں کی۔انتہائی مخصوص اور سیلکٹڈ مضامین کے مطالعے اور تیاری سے 2002ء میں گلگت بلتستان کے لیے منعقدہ مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہوئے اور ضلع دیامر کے پہلے ) OMS آفس منیجمنٹ سروس( آفیسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔اس سے قبل دیامر سے ڈائریکٹ کوئی اس سروس کا حصہ نہیں بنا۔2005کے فرقہ وارانہ فسادات میں اپنی سرکاری آفس میں شدید زخمی ہوئے تاہم معجزانہ طور پر بچ گئے اور انہیں نئی زندگی مل گئی۔کئی محکموں میں بطور سیکشن آفیسر اور ڈپٹی سیکریٹری کے کام کیا۔ 2014کو سیکریٹری بنے۔کچھ عرصہ پی پی ایچ آئی میں بھی کام کیا۔ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں بھی سیکریٹری رہے لیکن انہیں بطور سیکریٹری ایجوکیشن گلگت بلتستان کے، شہرت ملی اور وہ گلگت بلتستان کے قابل ترین آفیسروں میں شمار ہونے لگے۔ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے اولین سیکریٹری رہے اور کئی ’’بولڈ‘‘ فیصلے بھی کئے جس سے ادارہ اور سرکار دونوں کو فائدہ ہوا۔

حاجی ثناء اللہ کیساتھ میری دو گھنٹوں پر مشتمل میٹنگ ہوئی۔بہت سے امور زیربحث آئے۔کچھ باتیں آن دی ریکارڈ آپ سے شیئر کی جارہی ہیں اور بہت کچھ آف دی ریکارڈ ہی رہے گا۔اپنی اچیومنٹ کے متعلق بتایا کہ کیڈٹ کالج چلاس ڈرنگ کے لیے بے انتہاء کوششیں کی ہیں۔یہ پراجیکٹ کئی سالوں سے فائلوں میں دبا ہوا تھا، کوشش کرکے اربوں کے اس پراجیکٹ کا ٹینڈر کروایا۔ چیف سیکریٹری اور واپڈا والوں کو مجبور کیا کہ وہ اس منصوبے کو شروع کریں۔ واپڈ والے کوشش کررہے تھے کہ ڈنڈی مارے لیکن ہمت کرکے ڈنڈی لگنے سے بچالیا۔کیڈٹ کالج ایک ایسا منصوبہ ہے جو دیامر اور جی بی سمیت پورے ملک کے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔کیڈٹ کالج ڈرنگ کے لیے ایک ارب بتیس کروڈ مینیج کروایا۔امید ہے کہ اس کالج سے دیامر خوب مستفید ہوگا۔

دیامر میں تعلیم نسواں کے سوال پر انہوں نے کہا ’’دیامرمیں خواتین کے لیے بہترین اداروں کا قیام از حد ضروری ہے۔دیامر کی ان بیٹیوں کو جو محکمہ ایجوکیشن میں ہیں،از خود دیامر کے مختلف ایریاز میں جاکرکام کرنا چاہیے اسی طرح ضلع دیامر کی جو بیٹیاں تعلیم یافتہ ہیں لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں ہیں، ان کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے دیامر کی تعلیمی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا چاہیے۔میرے دور میں دیامر میں کافی حد تک ہوم اسکولز، مکتب اسکولز اور گرلز اسکولز میں تعلیم نسواں کے لیے کوششیں ہوئی جو کافی حد تک بارآور بھی ثابت ہوئیں۔گرلز ہائی سکول چلاس میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں شروع کروایا جس کا بہترین رزلٹ نکلا۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیامر کی طالبات کو مواقع میسر ہوں تو وہ اپنا ٹیلنٹ بھرپور استعمال کرسکتی ہیں۔سرکار جس رفتار سے دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی لگارہی ہے اس سے تین سو فیصد زیادہ کی ضرورت ہے تاکہ ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ ہوسکے ۔ صرف بلڈنگ بنانا تعلیمی ایمرجنسی نہیں کہلائی جاسکتی۔طالبات کے لیے بہترین لیڈی ٹیچر ز کے لیے سرکار کو الگ پالیسی بنانے ہوگی۔مثال کے طور پر مدارس و جامعات کے فاضلات کو ایکویلنسی دے کر ہوم اسکولوں اور مکتب اسکولوں میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے اور بڑے اسکولوں کے لیے انہیں فاضلات کو ترجیحی بنیادوں پر ATTC اور دیگرشارٹس تعلیمی کورسز کرواکر انہیں بہترین پیکج اور ماحول کیساتھ سرکاری اسکولوں میں ایڈجسٹ کیا جاوے تو کوئی بعید نہیں کہ دیامر میں خواتین کا تعلیمی انقلاب نہ آجائے۔سرکار کے ساتھ دیامر کے سماجی رویوں میں تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ ایسے پروگرامات تشکیل دیے جاسکتے ہیں جن سے خواتین ایجوکیشن کے لیے آگاہی حاصل ہو۔دینی علوم کی روشنی میں ہی عورت کی تعلیم کی اہمیت دیامر والوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔دیامر کے نیم قبائلی ڈھانچے نے عورت کی تعلیم اور جنرل موومنٹ کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے لیے ترجیحی کام کی ضرورت ہے۔کچھ بڑے فیصلے کرنے ہونگے جن سے تقدیر ہی بدل جائے۔خوف کے مارے معاشرے اور ریاستیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ این جی اوز کو بھی کاغذی کاروائی سے بلند ہوکر عملی اقدامات کرنے ہونگے۔مشکلات میں ہی کام کرنا ہوگا۔ کچھ این جی اوز نے دیامر میں اسکول بنوائے تو میں نے ان کیساتھ بطور سیکریٹری ایجوکیشن ساتھ دیا اور جو ہوسکتا تھا کرلیا۔قوموں کی ترقی میں ان کی سوچ میں تبدیلی بہت ضروری ہوتی ہے۔ دیامر والوں کو اپنی سوچ اور ترجیحات میں تبدیلی لانی ہوگی۔جب تک دیامرکا پڑھا لکھا طبقہ اور صاحب ثروت لوگ تعلیم کو ترجیح نہیں دیں گے اور اپنی بہنوں بیٹیوں کو تعلیمی میدان میں نہیں لائیں گے تب تک تبدیلی کا خواب عبث ہی رہے گا۔

میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے دور میں گلگت بلتستان کالجز کے لیے عرابک لیکچراروں کے لیے آسامیوں کی کریشن نہیں ہوئی،جو ہونی چاہیے تھی، مسائل اتنے زیادہ تھے کہ توجہ اس طرف نہیں گئی، تاہم جب ملکی لیول پر اور جی بی حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دیا تو میں نے فورا OT یعنی اورینٹل ٹیچرز کی ستر سے زائد آسامیاں کریٹ کروائی، پی سی فور میں او ٹی کو ترجیح دیا اور ان پر عربی اور قرآنی علوم کے ماہر اساتذہ اور استانیاں فیڈرل پبلک کمیشن سے بھرتی ہوئے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ میں اب بھی کوشش کرونگا کہ گلگت بلتستان کے کالجز میں طلبہ کی تشنگی کے خاتمہ کے لیے اور عربی زبان کی تدریس کے لیے اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔عربی علوم کی تفہیم و ترویج کے لیے عرابک ٹیچرزکا ہونا بہت ضروری ہے۔عربی زبان سے شناسائی کے بغیر قرآن فہمی مشکل ہے۔

حاجی ثناء اللہ سے کئی بار مکالمے ہوئے، جب وہ ایجوکیشن کے سیکریٹری تھے تو پروفیسر ایسوسی ایشن کے وفود کیساتھ بھی ان سے طویل مباحثے ہوئے۔ دینی علوم کے حوالے سے ان کی معلومات حیران کن ہوتی ہیں۔دن بھر سرکاری فائلوں میں الجھنے والے ایک آفیسر دیگر بہت سے امور سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری اور چودھری شجاعت حسین کے متعلق کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز سے خوب آگاہ ہیں۔ان سے بہتر پاکستانی سیاست کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ترجمہ قرآن سے بڑا شغف ہیں، پنج پیری شیخ کو بطور مفسرقرآن آئیڈیل سمجھتے ہیں اور تفسیرقرآن میں ان کی خدمات کو سراہتے ہیں۔علماء کرام سے گزارش کرتے ہیں کہ جدید دور کے تقاضوں کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں اور اپنے تعلیمی پروگرواموں اور سلیبس کو اسی حساب سے ڈیزائن کریں تاکہ معاشرے کی اصلاح و تربیت کے لیے بہترین افراد تیارکیے جاسکیں۔

حاجی ثناء اللہ سے ہونے والے مختلف مکالموں سے یہ انداز لگانا مشکل نہیں کہ دیامر میں تعلیمی انقلاب کے لیے ان کے دماغ میں کئی بہترین منصوبے ہیں۔جب وہ سیکریٹری ایجوکیشن تھے تو انہی صفحات پر کئی مسائل کی نشاندھی کی۔اور کئی بار ان پر سخت تنقید بھی کی۔تاہم یہ کہنے پر کوئی باک نہیں کہ اب بھی دیامر میں تعلیمی انقلاب کے لیے ایک ٹیم تشکیل دے کر کوششیں کی جائے اور اس پراجیکٹ کی تمام ذمہ داریاں حاجی ثناء اللہ،سیکریٹری ایجوکیشن سید عبدالوحید شاہ اور کمشنر دیامر رحمان شاہ کی دی جائے تو بعید نہیں کہ یہ حضرات تعلیمی ماہرین کیساتھ مل کر دیامر میں تعلیمی انقلاب برپا کریں ۔یہ تینوں حضرات دیامر کی سماجی اور قبائلی روایات اور ان کے کلچر سے خوب واقف ہیں، وہاں بڑا عرصہ کام کیا ہے اور دیامر کیساتھ مخلص بھی ہیں اور درد بھی رکھتے ہیں۔ دیامر میں ان کے لیے احترام بھی پایا جاتا ہے۔وزیراعلی گلگت بلتستان، فورس کمانڈر گلگت بلتستان اور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ دیامر میں سماجی اور تعلیمی انقلاب کیسے لایا جاسکتا ہے۔ورنا یاد رہے کہ دیامر کی صورت حال یوں ہی رہے گی تو نہ سی پیک محفوظ ہوگا نہ، دیامربھاشا ڈیم پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور نہ ہی گلگت بلتستان ترقی کے منازل طے کرے گا۔آج بھی یہ تینوں ذمہ دار لوگ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر دیامر کے لیے ایک ’’ میگا سماجی اور تعلیمی پراجیکٹ ‘‘ تشکیل دے کر مذکورہ تینوں آفیسران کو ٹائم فریم کیساتھ ٹاسک دیں گے تو یہ حضرات ضرور کچھ کرجائیں گے۔پھر ریاست اور ریاستی اداروں کو دیامر سے شکایتیں بھی نہیں ہونگی ورنہ روز کسی جرنیل اور ٹین کور کو دیامر میں آکر دھمکیاں دیتے ہوئے گزارہ کرنا پڑے گا۔تو کیا ہمارے بڑے ایسا کچھ کریں گے؟ دیامر کے حوالے سے پالے ہوئے خوف کو ختم کرنا ہوگا۔ورنہ یہ خوف گھن کی طرح سب کو کھا جائے گا۔اس خوف کا خاتمہ دیامر کے سماجی ڈھانچے میں تبدیلی لاکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button