صحت سہولیات
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صو بے کے اندر صحت کی بنیادی سہو لیات میں تمام ’’سہولیات ‘‘ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جس وقت وزیر اعلیٰ ہدایات دے رہے تھے اُس وقت محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام ایک دوسرے کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اُن کو معلوم ہے کہ اس سے پہلے کم ازکم 14سیا ستدانوں اور فو جی افیسروں نے صو بے کا حا کم بننے کے بعد ایسی ہی مٹینگوں میں اس نو عیت کی ہدا یات دی ہوئی تھیں مگر پر نا لہ وہیں کا وہیں رہا۔ صحت کی بنیا دی سہو لیات میں اگرکوئی کمی ہے تو ’’بنیادی سہولیات ‘‘ ہی کی کمی ہے دیواریں اور دروازے اب تک سلامت ہیں۔
اس وقت صو بے کے اندر صحت کے شعبے میں دو طرح کے انقلا بی اقدامات کے بغیر بنیادی سہو لیات دستیاب نہیں ہو نگی پہلا انقلابی قدم یہ ہے کہ سیکریٹریٹ کی سطح پر محکمہ صحت کو تین شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے پرائمری ہیلتھ کیئر، ٹرشیری ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹوشنز (MTIs) کا شعبہ ، تینوں کو الگ الگ سیکر یٹریوں اور الگ الگ وزراء کی ماتحتی میں دیا جائے تو جس خط کا جواب دو سالوں میں آتا ہے اُس کا جواب ایک ہفتے میںآجائے گا۔
یہ 2009کا واقعہ ہے بیسک ہیلتھ یو نٹ کے کوار ٹر میں لیڈی ہیلتھ وزیٹر نے مریضہ کا اپریشن کیا بچہ بھی مر گیا ؟ مریضہ بھی مر گئی، لوگوں نے سڑ کوں کو بلا ک کرکے احتجاج کیا ایل ایچ وی کے خلاف زیر دفعہ 302ایف آئی آر درج کر کے ملزمہ کو گرفتار کیا گیا 8ماہ بعد فریقین میں صلح نامہ طے پا یا ایل ایچ وی کی رہائی عمل میں آئی اُس کو ملازمت پر دو بارہ بحال کرنے کے لئے ڈی جی آفس سے رجوع کیا گیا تو پتہ چلا کہ ڈی ایچ او کی طرف سے کوئی رپورٹ نہیں آئی دوبارہ ڈی ایچ او کے دفتر سے رجوع کیا گیا توکہا گیا کہ رہا ئی کے دن سے تنخوا مل جائیگی فکر نہ کرو ،وجہ یہ ہے کہ محکمے کا حجم بہت بڑا ہے ڈاکٹر ، نر س یا پورا ہسپتال بھی لا پتہ ہوجائے تو ڈی جی کو اس کی خبر نہیں ہو تی پی پی ایچ آئی کے نام سے بڑا پراجیکٹ آیا مگر 10سا لوں میں کسی بیسک ہیلتھ یو نٹ میں لیبارٹری نہیں بنی ، ایکسرے پلانٹ نہیں لگا یا گیا ، ڈینٹل یو نٹ نہیں لگا یا گیا ایمرجنسی میں مریضوں کے داخلے کے لئے 4بیڈ نہیں دیئے گئے گویا بقول شاعر خواب تھا جو دیکھا جو سنا افسانہ تھا 25 جنوری 2014ء کے دن چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر سے 45کلو میٹر مشرق میں دراغلش کے مقام پر سواریوں سے بھری ہوئی گاڑی کو حا دثہ پیش آیا دن کے 10بجے 6زخمیوں کو گاڑیوں میں 2کلو میڑ کے فاصلے پر واقع BHUمروئے پہنچا یا گیا وہاں مرہم پٹی کی سہو لت نہیں تھی زخمیوں کو 21کلومیٹر مزید سفر کر کے آر ایچ سی کو غذی لا یا گیا وہاں فرسٹ ایڈ کی کوئی سہو لت نہیں تھی مزید 22کلو میٹر سفر کرکے زخمیوں کو DHQہسپتال چترال پہنچا یا گیا ان میں سے 4زخمی دم توڑ گئے دو بچ گئے اگر جائے حا دثہ سے 2کلو میٹر کے فاصلے پر واقع BHUمیں ’’ بنیادی سہو لیات ‘‘ ہوتیں تو 4قیمتی جا نیں بچ جا تیں اس روشنی میں دوسرا بڑا انقلا بی قدم یہ ہو گا کہ 1970اور 1980کی دو دہا ئیوں میں یونین کونسلوں کی سطح پر جو BHUقائم ہوئے تھے ان میں لیبارٹری ، ایکسرے پلانٹ ، ڈنٹیل یونٹ اور ایمر جنسی کے لئے 4بیڈ فراہم کر کے کم ازکم 2میل ڈاکٹر ، ایک لیڈی ڈاکٹر اور ایک ڈنٹیل سر جن کے ساتھ ٹیکنیشن اور نر سنگ سٹاف فراہم کئے جائیں یہ بنیادی ضروریات ہیں پرائمری ہیلتھ کیئر کا محکمہ الگ سکرٹری اور الگ وزیر کے ما تحت ہو گا تو اس طرح کی بنیادی سہو لیات کو فراہم کرنے کے لئے منصو بہ بندی ہو سکیگی حال ہی میں خیبر پختونخوا کے چیف سکرٹری نے متعلقہ حکام کے ہمراہ چترال میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شب کے تحت چلنے والے 3دیہی مراکز صحت (RHCs)کادورہ کیا اس دورے میں اگر اعلیٰ حکام ضلع کے 34 BHUs میں سے کسی ایک ہیلتھ یو نٹ کے اندر جھانک لیتے تو پتہ لگ جا تا کہ صورت حال کیا ہے ، شاعر نے قدیم باد شاہ بہرام گور کے قلعے کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے دیکھ کر اس پر شعر کہاتھا
آں قصر کہ بہرام دروجام گرفت
آہو بچہ کرد ، وُروباہ ارام گرفت
جس جگہ بہرام گور جام و مینا کی محفل سجا تا تھا وہاں ہرنی نے بچہ دیا ہے اور لومڑی سوئی ہوئی ہے ایسے ہی BHUکی عمارتوں میں کتے اور بلّیاں نظر آتی ہیں وزیر اعلیٰ کا فیصلہ بر وقت اور بر محل ہے مگر مشکل یہ ہے کہ کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے ؟ قابل عمل تجویز یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ معا ئینہ ٹیم کے اراکین کو الگ الگ اضلاع میں حقائق جاننے کے مشن پر بھیجا جائے ایک مہینے کے اندر کم از کم 30یا 32بیسک ہیلتھ یو نٹس کا معا ئینہ کر وا کے صورت حال کا جا ئزہ لیا جائے پھر اگلے ما لی سال سے دیہی علا قوں میں 40سال پہلے قائم ہونے والے بنیادی صحت کے مر اکز کو مر حلہ وار بحال اور فعال بنانے کا پروگرام وضع کیا جائے اگر ہر سال 40مراکز صحت کو بحال کیا گیا تو اگلے 5سالوں میں 200مر اکز صحت بحال ہو جائینگے اور پرائمیری ہیلتھ کئیر کا خواب پورا ہو گا ضلع سوات میں والی صاحب کے دور کی مثالیں مو جود ہیں ضلع چترال میں پپلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بحال شدہ 3دیہی مر اکز صحت شاگرام ، مستوج اور گرم چشمہ اس کی مثا لیں ہیں جدید دور میں صحت کی بنیادی سہو لیات سے مراد ڈسپرین کی گو لی نہیں اس سے مراد ایکسرے ، لیبارٹری اور ایمر جنسی بیڈ کی سہو لیات ہیں اورکم از کم 4ڈ اکٹر وں کے ساتھ دیگر سٹاف کی ڈیو ٹی پر مو جود گی ہے اس سے کم کسی کام گو بنیا دی سہو لت نہیں کہا جاسکتا امید ہے وزیر اعلیٰ اپنی ہدایات پر عمل بھی کرائیں گے