کالمز

ہم پربتوں سے لڑتے رہے اور چند لوگ ۔۔۔؟

میں محمد حسین ہوں، کوہ نوردی کی دنیا مجھے لٹل حسین کے نام سے جانتی ہے۔ میں سلسلہ قراقرم کی نوکیلی چوٹیوں میں گھرے گاوں مچلو سے تعلق رکھتا ہوں۔ جو غنڈوغوڑو، رگشہ بروم اور مشہ بروم کے فلک بوس پہاڑوں کے ساتھ ساتھ مچلو لہ کے اس مقام کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر شہرت کا حامل ہے جہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پشتوں سے ہمارے بزرگان کوہ نوردی کے پیشے کو بطور حصول نان ونفقہ اپناتے رہے ہیں۔ گوکہ اپنے دور کے چند پڑھے لکھے کوہ نوردوں میں میراشمار تھا اور اب بھی اس شعبے میں قلم و قرطاس سے منسلک لوگوں کی کال ہے ۔ میرے ہاتھ بھی لمبے نہیں ، بس اپنے قدکاٹھ کے مطابق ہی ہیں اس لئے کسی سرکاری نوکری جیسی عیاشی سے میں محروم رہا۔ غم روزگار کا بوجھ لئے بوجھل بوجھل صحرا نوردی خلاف ریت تھی اسی لئے کوہ نوردی میں طالع آزمائی کی ٹھان لی۔ میرے قدکاٹھ دیکھ کرمیرے سامنے ایستادہ دیوقامت پہاڑوں کو شاید تعجب توخوب ہوا ہوگا مگر میرے پیشرو تجربہ کار کوہ پیمامجھے اس پیشہ طلب گارمرد کے لئے نامعقول سمجھتے تھے۔ میری خواہش کے برعکس مجھے معاون باورچی کے طور پراس شعبے کے لئے منتخب کیا گیا۔ 1992میں بطور اسسٹنٹ کک میں نے کام کاآغاز کیا۔ پھر گائیڈ اور سردار بنا۔ 1998میں اپنے گاوں کے دو تجربہ کار ہائی پورٹرز ابراہیم اور رستم کے ساتھ K-1کی مہم پر گیا۔ اسی سال گرین ماونٹین سکول سے باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی۔ ایک سال قبل G-2رگشہ بروم ٹو کے لئے ایک کورین خاتون کوہ پیما لیڈی مس جی کے ساتھ گیاجس کی بلندی آٹھ ہزار پینتیس میٹر ہے۔ اسی سال سردیوں میں مچلو میں فلیکس نے ایک تربیتی پروگرام رکھا جس میں سپین سے ماہر کوہ پیماوں نے شرکت کی اور زیرتربیت افراد کی تربیت کی۔ اس کے ایک سال بعد قاتل پہاڑ کے نام سے موسوم ننگاپربت کی عظمتوں سے نبردآزما ہونے والی ٹیم نے میری معاونت طلب کی اور شل روڈ اور روپل فیس کی طرف سے مہم جوئی کی ۔ یہی وہ خاص راستہ ہے جس کی وجہ سے اس پہاڑ کا نام قاتل پہاڑ پڑچکا ہے۔ گویا ہم براستہ قاتل سوئے مقتل نکل پڑے۔ مگر خداکی مہربانی سے نہایت سیدھی ڈھلوان سے ہم ننگاپربت کی بلندیوں کو چت کرتے ہوئے سات ہزار تین سو میٹر کی بلندی پر قدم جماگئے۔ شومئی قسمت کہ خراب موسم آڑے آیا اور ہم الٹے قدم لوٹ پڑے۔ یہ میری زندگی کا وہ خوبصورت لمحہ تھا جسے میں ناقابل فراموش سمجھتا ہوں۔ یہیں سے مجھے حوصلہ ملا، چھوٹے قدکاٹھ کے باوجود میں اپنے کپڑوں میں پھولا نہیں سما رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ میری یہ کامیابی سیاحت کے فروغ کے لئے سرگرداں نام نہاد ذمہ داران کو ایک آنکھ بھی بھائی کہ نہیں۔ بس اتنا مجھے یاد ہے کہ جہاں موت میرا استقبال کررہی تھی اس سے دودوہاتھ ہو کر لوٹتے ہوئے زندگی کی بہاریں مجھ پر مسکرا رہی تھیں۔ ایک نئی زندگی کی امید ایک عزم نو کی تائید میں جھلمل جھلمل چمک رہی تھی۔ پھر عزم وحوصلے کا نہ تھمنے والاسلسلہ شروع ہوا۔ سن 2002میں براڈ پیک کو سرکیا جس کی بلندی آٹھ ہزار سینتالیس میٹر ہے۔ اس مہم کی قیادت جاپان کے ایک گروپ کے لیڈر مسٹر کوندوژاوچی کر رہے تھے۔ 2001کی اس مہم کو میں اپنی یاداشت سے کیسے محو کرسکتا ہوں جب چائنہ میں جاپانی ویمن گروپ کے ساتھ مسطاغاتا ایکسپیڈیشن میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ یہ چوٹی چائنہ میں موجود ہے جس کی بلندی سات ہزار پانچ سو چھالیس میٹر کے لگ بھگ ہے۔ اب تک ساری مہمات میں کامیابیوں، مہارت اور پھرتیوں کے باجود میں بطورکوہ پیما پہچانانہیں جاتا رہا بلکہ بطور بلندی کے معاون بوجھ بردار کے طور پر مجھ سے کام لیتا رہا۔ ہم سے رابطہ کرنے کے دو ہی راستے تھے ایک یا ہماری اپنی کوششیں رنگ لے آئیں اور کسی گروپ سے ہاتھ ملا سکے یا پھر ان گروپوں میں سے کسی نے ہم سے رابطہ کیا البتہ چند غیر سرکاری ٹورآپریٹر زہمیں بطور مزدور بھی ان سے ملواتے تھے۔ 2001میں پاسو پیک پر جاپان کے ایک کلائمبر کی موت ہوئی اس کی میت کو لانے کے لئے میں نے اپنی خدمات پیش کیں اور اسے کامیابی سے اتار لایا۔ مسٹرکوندو کے ساتھ کے۔ٹو کی مہم پر جانے کا اتفاق بھی اسی سال ہوا۔ موسم کی خرابی اس بار بھی میرے عزم کو دھندلا گئی اور میں بیچ راستے سے لوٹا۔ اسی سال بیس کیمپ سے کیمپ ٹو پر پھنسے جاپانی کوہ پیما کی جان بخشی کی سعادت بھی میرے حصے میں آئی اور مجھے فخر ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہے ، بیس کیمپ سے اس کو بذریعہ ہیلی کاپٹر سکردولایا گیا تھا۔ 2003میں گلگت میں واقع چوٹی کھنیاں کھش جو کہ سات ہزار چار سومیٹر سے زائد بلندی کی حامل ہے پر مہم جوئی کا اتفاق ہوا اور راستہ بند ہونے کی وجہ سے چھے ہزار چھے سو میٹر کی بلندی پر چڑھ نکلنے کے بعد بوجھل دل واپس لوٹنا پڑا۔2004میں سکردو میں کے۔ٹو کی گولڈن جوبلی منائی جارہی تھی اس حوالے سے چائنہ تبت مانٹینرئنگ ایسوسی ایشن اور الپائن کلب پیش پیش تھے اس دوران مجھے بطور پاکستانی کلائمبر کے۔ٹو کی مہم جوئی کا موقع ملا جوکہ ایک بوجھ بردار سمجھے جانے والے کردار کے لئے اور خاص کر بلندیوں سے لو لگانے والے کے لئے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ اس دوران آب وہوا کے عادی ہونے کے لئے ڈیڑھ ماہ تک بیس کیمپ پر بیٹھا رہا۔ پھر مہم جوئی ہوئی۔ اس دوران خوش قسمتی سے ہم کامران رہے۔ پاکستان کا جھنڈا کے ٹو پر لہراکر دل کو جو سکون ملا اسے زبان سے بیان کرنا مجھ جیسے زبان وبیان سے نابلد شخص کے لئے خارج ازامکان ہے۔ دوسری طرف اس مہم میں کیمپ فور سے سمٹ کے لئے رات گیارہ بجے نکلے اور صبح ساڑھے سات بجے سرکرنے میں کامیاب ہوگئے جوکہ تیزترین مہم جوئی میں ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ کیمپ تھری سے کیمپ فور ایک طاقتور سے طاقتور بلندی کے بوجھ بردار صرف دس کلو وزن لے جاتاہے مگر میں نے ہنگامی حالت کے پیش نظر اسی فاصلے اور بلندی پر پچیس کلوگرام وزن لے کر سفرکرکے ایک عالمی ریکارڈ اور قائم کیا۔K-2 میں سٹیپ پر رسی لگانے کا تجربہ بھی حاصل ہوا۔ 2005میں رگشہ بروم ٹو جس کی بلندی آٹھ ہزار پینتیس میٹر تک ہے ، اس پر مہم جوئی کا موقع ملا اس بار ایک اور جاپانی گروپ کے ہمراہ تھا مگر کیمپ فور پر پہنچ کر واپس ہوا۔ حالانکہ کیمپ فور سے اگلی منزل سمٹ کی تھی اور خراب موسم میں دھندلے خواب کی مانند دکھائی دے رہی تھی مگر آگے نہ بڑھ سکا۔ رگشہ بروم ٹو میں کیمپ ٹو پر بغیر سلیپنگ بیگ کے سونے کا اتفاق ہوا جسے میری سخت جانی برداشت کرگئی۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب ایک خاتون کوہ پیما اپنا بوریا بستر کیمپ ون پر چھوڑ آئی تھی اور عین سونے کے وقت انہوں نے مجھ سے میراسلیپنگ بیگ مانگا اور میں از راہ انسانیت اسے اپنا بیگ پیش کردیا۔ سال2006میں دوبارہ کھنیاکھش پر جاپانی کوہ پیما ٹیم کے ساتھ جانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اس بار بھی ناکام لوٹا۔ جبکہ جاپان کی ایک ٹوکیو یونیورسٹی کی ٹیم سرکرکر واپس آرہی تھی کہ راستے میں برفانی تودے کے نیچے دب گئی۔ دو سال تک جاپان کی ٹیمیں ان کی تلاش میں متواتر آتی رہیں۔ 2007میں آسٹرین مہم جووں نے براٹ پیک سمٹ پر ریسکیو ٹیم تشکیل دی جس کا میں بھی ممبربن کر بندے کو ریسکیو کیا جو کہ دنیا میں پہلی دفعہ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے ریسکیو کرنے کا پہلا ریکارڈ ہے۔ اس کے ایک سال بعد سربین ٹیم کے ساتھ K-2کے لئے گیا جس میں بوتل نیک نامی جگہے کے نزدیک گیارہ بندے ایوالانچ کی نذرہوگئے ۔ جوکہ اس چوٹی پر ہونے والی گروہی ہلاکتوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ میری علم کے مطابق یہ حادثہ ایک ممبر کی وجہ سے ہوا جو کہ سیفٹی لائن پر نہیں تھا اس کے بعد ایوالانچ میں باقی گیارہ افراد بھی جان سے گئے۔ میں ان سے آگے اور بلندی پر چڑھتے ہوئے میں نے ان سب کو اس مخدوش حالات میں دیکھا تو اپنے آ پ کو سیفٹی لائن سے منسلک کرلیا تھا۔ جس کی وجہ سے جان بخشی ہوگئی۔ اس مہم میں صرف دوچار ممبر ہی جانبر ہوسکے۔ جان بحق ہونے والوں کی سرچ اینڈ ریسکیو بھی ناممکن تھی۔ کے۔ٹو پر مہم جوئی کے لئے موسم کی کارگری بہت اہم ہے ورنہ زندگی اور موت کا معمہ درپیش رہتاہے۔ نیپال کا ایک شیرپا بھی اپنے بھائی کو ریسکیو کرکے نیچے لاتے ہوئے برف کی ظالم موجوں کی بھینٹ چڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ساتھ سوگئے۔ 2004میں چین کے ایک گروپ کے ساتھ رگشہ بروم ٹو گیااور چڑھ نکلااوربحفاظت واپسی بھی عمل میں آئی۔اسی سال ایک چینی مہم کو برف کی دراڑوں میں گرنے کے بعد زندہ نکال لیا ۔ کم وبیش پچاس فٹ کی گہرائی تک اندر اتر کر میں نے اس کو بچا لیا جبکہ ہمارا ایک ممبر اس دراڑ کے کنارے اینکر پر تھا۔ 2010 میں ایک ٹریکرز کی ٹیم کے ساتھ حراموش پاس گیا جس کی قیادت ایک جاپانی خاتون کررہی تھی۔ جاپانی خاتون کو بھی ریسکیوکیا۔ 2011میں رگشہ بروم ٹوایک سوئس ایکسپیڈیشن کے ساتھ گیابدقسمتی سے سر نہ کرسکا۔ 2012میں براٹ پیک پر گیا تائیوانی گروپ کے ہمراہ تھااور ایک تائیوانی ممبر کو اونچائی کی وجہ سے غشی کادورہ پڑا۔ اس بار سرکرنے سے پندرہ میٹر کا فاصلہ رہتا تھا۔ اسے آکسیجن پر لگا کر بیس کیمپ پر واپس لایااس دوران چار سے پانچ دن کی مشقت کرنی پڑی جو اس قدوقامت میں ٹھینگنے جان بے مایہ نے بخوبی برداشت کرلیا۔ نیپال کے ایک شیرپا کو بھی اسی بلندی پر طبی امداد دینے کا اتفاق ہوااوروہ جانبرہوا۔ 2014کی بات ہے جب کے ۔ٹو پر ایک آرمی آفیسر رسی کٹ کر گرنے سے جان بحق ہوگیا تھا وہ الپائن کا ممبر بھی تھا اس کی میت کو ریسکیو کرنے کا موقع ملا۔اسی طرح ہرسال کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں۔ اب یہ باتیں معمول کی سی باتیں لگتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو سب سے اہم بات ہے وہ 2018 میں کے۔ٹو سے سکیی پر اترنے والے مہم جو کے لئے سب سے سیدھی ڈھلوانی راستے چی ژون روڈ پررسیاں لگانے کا سہرا بھی میرے سر رہا۔ اور اس مہم جو نے کامیاب ہوکر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ کوہ پیمائی جوکھم بھرا اور جان لیوا کھیل ہے یہاں پل پل موت سے سامنا رہتا ہے۔ مگر جب چوٹی سرکرتا ہوں تو اس چوٹی پر ملک کا پرچم لہرانے کا جو احساس ہے وہ انہی ہواوں میں ہی بھلی لگتی ہے۔مجھے فخر ہے کہ میںK-2 فتح کرنے والا پاکستان میں چھٹے نمبر کا کوہ پیما ہوں۔جب تک دم میں دم ہے ملک کا نام روشن کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کروں گا۔ لیکن ہمیں سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں شہرت اور پہچان کے لحاظ سے نا انصافی کا یہ عالم ہے کہ میں بجا طور پر کہوں گا کہ "ہم پربتوں سے لڑتے رہے اور چند لوگ۔گیلی زمیں کھود کر فرہاد بن گئے”۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button