خودکشی کے اسباب
تحریر: انارہ صاحب خان
مفہوم حدیث: جس نے اپنا گلا گھونٹا وہ جہنم کی آگ میں گلا گھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کو نیزہ مارا وہ جہنم کی آگ میں خود کو نیزہ مارتا رہے گا.
خودکشی کے بہت سے اسباب ہیں مثلا ; ناامیدی (مایوسی), ناکام محبت, غربت, احساس کمتری, معاشرتی دباؤ, دینی تعلیمات سے دوری اور دوسروں کی دیکھا دیکھی. اس مضمون میں ہم چند اسباب کو تفصیل سے موضوع بحث بنائیں گے۔
ناامیدی: "اللہ قادر ہے”. بحیثیت مسلمان ہم اللہ کی یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو اس بات کو ذہن نشین گر نہ کریں تو یقینا احمقانہ حرکت ہوگی کہ کوئی بھی طاقت اللہ کی طاقت سے باہر کی نہیں ہے. غم خوشی سب اسی کی عنایت ہے اور اگر آزمائشیں ہیں تو بھی اسی کی عطا کردہ پھر یہ ناامیدی کیوں? پھر یہ شیطان کے بہکاوے میں آکر خودکشیاں کیوں? یاد رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے, جس نے پتھر کے بیچوں بیچ موجود کیڑے کو رزق عطا کیا وہ بھلا اپنے بندوں کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے. بات صرف سمجھنے کی ہے صاحب, ورنہ یوں تو خودکشیاں کرنے سے مصیبتیں نہیں ٹلتی بلکہ تم تو دنیا اور آخرت دونوں برباد کردیتے ہو یہ روح جو ایک امانت ہے نہ دنیا کی ہوتی ہے اور نہ آخرت کی. لہٰذا آزمائش کی گھڑی آنے پر جو درحقیقت اس کے اپنے قوت برداشت سے بڑھ کر نھیں ھوتی کو رائی کا پہاڑ سمجھنے کے بجائے ڈٹ کر سامنا کرے اور اپنے آپ کو اور آنے والی نسلوں کو اس شیطانی اور بھیانک موت سے جتنا ہوسکے صرف اپنے عمل سے دور رکھے.
محبت میں ناکامی: آج کل کے نوجوان تو مجازی عشق میں ایسے گرفتار ہوگئے ہیں کہ جیسے ان کا محبوب دنیا کا آخری اور پہلی شخصیت ہو جو درحقیقت افسوس کے ساتھ نہیں ہے. لہذا ہم تمھارے بن مر جائیں گے, فلا تم میری آخری محبت ہو جیسے گھسے پٹے ڈائیلاگ سننے سنانے سے اجتناب کریں اور اپنے حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے ایک ایسی مثال قائم کرے جو آنے والی نسل کے لیے بھی سبق آموز ہو. جس سے آپ کا گھر آپ کی قوم و ملک کے حالات سنورے بجائے اس کے کہ عشق نے غالب نکما کر دیا…. والے سستے اشعار عرض کرکے ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے بچوں کے دلوں میں ڈال کر اس بات کو ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے کہ "ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے”.
احساس کمتری: اب ہم کسی کو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدارا ہمیں کم تر نہ سمجھیں بلکہ بات صرف اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کی ہے. یہ حقیقت بات ہے کہ معاشرے میں ایسی کوئی چیز نہیں جسے دیکھ کے کوئی بھی شخص یہ نا کہے کہ کاش! یہ میرے پاس بھی ہوتا. صحت مند کے پاؤں دیکھ کے معذور ناامیدی کا شکار, جس کے پاس جو تے نہیں وہ کسی کے پیروں میں جوتے دیکھ کے کمتری کا شکار, غریب کسی رئیس کا گھر دیکھ کے کمتری کا شکار, امیر مالدار کسی مڈل کلاس بندے کے سکون کو دیکھ کے سکون کا طلبگار. ارے نادان اولاد آدم! یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہی تو اس فانی دنیا کا دستور ہے. کوئی بھی شخص اس دنیا میں صرف موج اڑانے یا مستیاں کرنے نہیں بلکہ اپنے حصے کی آزمائشیں پوری کرنے آیا ہے اور یہی حقیقت ہے. خودکشی کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ اور بڑھ جاتے ہیں تو غرض یہ ہوا کہ خودکشی کرنا تپتی دھوپ میں آگ کے پاس بیٹھنے کے مشابہت ہے.