سر سبز پاکستان
حکومت نے صاف اورسر سبز پاکستان منصو بے پر کام شروع کیا ہے جبکہ ’’ایک ارب درختوں کے طو فان ‘‘ بلین ٹر ی سونامی کے متاثرین جگہ جگہ دھر نا دے کر اپنے حقو ق مانگ رہے ہیں جن لوگوں کو دھر نا دینے پر مجبور کیا گیا اُن کا نام 2016 ء میں نگہبان رکھا گیا تھا صاف اور سر سبز پاکستان پروگرام میں ماضی کی غلطیوں کو دہر انے سے پر ہیز نہ کیا گیا تو 3 سال بعد اس پروگرام کے متاثرین بھی سڑکوں پر نکل آئینگے دھر نا دیکر اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھا ئینگے مسئلہ وژن کا نہیں مسئلہ صر ف طریقہ کار میں ہے اور طریقہ کار کی بنیاد مفروضوں (Assumptions) پر رکھنے کی وجہ سے بلین ٹری سونامی کے اندر مسائل پیدا ہوئے اُس پروگرام کے تین مفروضے غلط تھے پہلا مفر وضہ یہ تھا کہ محکمہ ماحولیات کے دو ذیلی دفاتر جنگلات اور وائلڈ لائف بلین ٹری سونامی پر عملد ر آمد کا کام کر ینگے یہ بالکل غلط بات تھی محکمہ ما حولیات کا دیہات کی سطح پر کوئی دفتر ، کوئی عملہ کوئی تجر بہ ہی نہیں تھا دوسر ا غلط مفروضہ یہ تھا کہ بنجر ز مین کے اندر بغیر ملکیتی حقوق کے پودے لگا ئے جائیں تو وہ ہر ے بھر ے جنگلات میں تبدیل ہونگے یہ مفروضہ اس لئے غلط تھا کہ پودوں کی حفاظت اور پانی کے لئے حقوق ملکیت پہلی شرط ہے پودے کس کے ہیں جنگل کس کی ملکیت ہوگی ؟ کس کی زمین استعمال ہو گی ؟ کس کا پانی استعمال ہو گا ؟ یہ بنیادی مسائل ہیں ان پر سوچ بچار کے بغیر پودے لگا نا مناسب اور موزوں فیصلہ نہیں تھا تیسرا غلط مفروضہ یہ تھا کہ اسلام اباد یا پشاور میں بیٹھا ہوا شخص پورے پروگرام کو آسانی سے کنٹرول کریگا یہ مفروضہ اس لئے غلط تھا کہ خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی لحاظ سے دو الگ الگ زون واقع ہیں دونوں کی ضروریات الگ الگ ہیں دونوں کے تقاضے الگ ہیں مثلاً میدانی علاقوں میں موسم خزاں میں شجر کاری ہوتی ہے پہاڑی علاقوں کے اندر موسم خزاں میں شجر کاری نہیں ہوتی مثلاً سائنسی وجو ہات کی بنا ء پر میدانی علاقوں کی نر سر ی سے اُٹھا ئے ہو ئے پو دے پہاڑی علاقوں میں کا میاب نہیں ہوتے مثلاً پہاڑی علاقوں میں Exotic کی جگہ Alien پودے لگا ئے گئے تو وہ نا کامی سے دو چار ہو نگے بلین ٹری سونامی کے تحت اسلام اباد اور پشاور سے حکم آیا کہ اکتو بر سے دسمبر تک 20 کروڑ پودے لگا ؤ 10 پہاڑی اضلاع میں 3 کروڑ پو دے میدانی علاقوں سے لا کر موسم خزاں میں لگا ئے گئے جو نا کام ہو ئے نا کامی کا ذمہ دار حکم دینے والے کو نہیں ٹھہر ایا گیا نا کامی پر مقامی مزدور کو پکڑا گیا اور کہا گیا تمہاری وجہ سے منصو بہ ناکا م ہوا حالانکہ شجر کاری سائنسی کا م ہے پہاڑی علاقوں میں نر سریوں کے مقامی تجر بات بہت کا میاب ہیں لوگوں نے اپنی نر سریوں سے بھی شجر کاری کی ہے غیر سر کاری تنظیموں نے بھی نر سریوں کے ذریعے شجر کاری کا بہت کا میاب تجر بہ کیا ہے مقامی نر سریاں شجر کاری میں بنیا دی کا م تصور کی جاتی ہیں مگر بلین ٹری سونامی کے اندر مقامی نر سر یوں کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی آنکھیں بند کر کے اوپر کے احکا مات پر عمل کیا گیا کیو نکہ تجو یز دینے کا کوئی موقع کوئی فورم نہیں تھا مقامی آبادی کو بات کر نے کی اجازت نہیں تھی عوام اور حکومت کے درمیان وہ خلا ،وہ دوری ، وہ گیپ اب بھی ہے حکومت کہتی ہے کہ ٹو ئیٹر ، فیس بک ، پورٹل پر تجا یز دید و یہ تین ذرائع 85 فیصد عوام کے پاس نہیں ہیں ان ذرائع کو جو گ استعمال کر تے ہیں وہ اسلام اباد ، لاہور ، کراچی ، سنگا پور ، دوبئی اور لندن جیسے شہر وں میں رہتے ہیں ان لوگوں کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں کیو نکہ یہ لوگ گاؤں ، دیہات اور شجر کاری والے جگہوں پر نہیں رہتے موجودہ حکومت کا کلین اینڈ گرین پاکستان بہت اچھا منصو بہ ہے اس کی کا میابی کا انحصار اس پر ہے کہ بلین ٹری سونامی کے غلط مفروضوں سے جان چھڑا ئی جائے اور نئے پروگرام کے لئے نئی منصو بہ بند ی کی جائے پہلے قدم کے طور پر کلین اینڈ گرین پاکستان کے پروگرام کو محکمہ ما حولیات سے لیکر محکمہ بلدیات کو دید یا جائے دوسرا قدم یہ ہو نا چاہیے کہ پروگرام پر عملد ر آمد کے لئے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کر کے ہر ضلع کے لئے الگ شیڈول رکھا جائے جو ماحول کے مطابق ہو مقامی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہو کسی زمین پر شجر کاری سے پہلے زمین کی ملکیت اور پانی کی ملکیت کا تعین کیا جائے تاکہ 3 سالوں تک پودوں کی مناسب دیکھ بھا ل کے لئے مالکان زمین کو اعتماد میں لیا جاسکے تیسرا قدم یہ ہو نا چاہیے کہ شجر کاری کے لئے مقامی نر سریاں لگائی جا ئیں ان نرسریوں سے مقامی پودے اُٹھا کر شجر کاری کی جائے تاکہ نتائج 100 فیصد کا میاب ہوں اور ہر جگہ نظر آنے والے نتائج ہوں ضلع چترال میں گذشتہ 40 سالوں کے اندر شجر کاری کے کئی نا کام اور کئی کا میاب تجر بے ہو ئے مثلاً 80 فیصد کی دہا ئی میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی شجر کاری کا میاب ہوئی 90 کی دہا ئی میں UNHCR کی شجر کاری نا کا می سے دوچار ہو گئی چترال کے زمینداروں نے انفر ادی سطح پر کا میاب تجر بے کئے چترال ٹاؤن میں جغور گاؤں کے اوپر پہاڑی ڈھلوان کو امیر محمد نا می زمیند ار نے اپنی ذاتی محنت سے ڈر پ سسٹم سے پانی دیکر سر سبز و شاداب جنگل میں بد ل دیا ہے IUCN کے ما ہنا مہ ’’ جر ید ہ‘‘ نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ابان ما رکر کبراجی نے بنکا ک سے امیر محمد کو تحائف اور انعا مات بھیجے رحمت علی جعفر دوست نے حکومت کو بلین ٹری سونامی کے لئے ضلع چترال میں مقامی نر سر یا ں لگا کر 3 سالوں میں 20 لاکھ پودے کا میاب کر نے کا قابل عمل منصو بہ پیش کیا تھا حکومت نے قبول نہیں کیا کلین اینڈ گرین پاکستان میں مقامی آبادی کو اعتماد میں لیکر کام نہ کیا گیا تو مطلو بہ نتا ئج بر آمد نہیں ہو نگے