کالمز

پرنام سنگھ کا جہاز

قارئیں ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سب کی طرح میری قوالیاں بھی طویل ہوتی جا رہی ہیں معافی چاہتا ہوں،

بار کونسل ،تحریک انصاف،پیپلز پارٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان کی قوم کے ساتھ جو کیا اس پر مجھے پرنام سنگھ کا واقعہ یاد آرہا ہے

پرنا م سنگھ نامی گرامی پائلٹ تھے ایک دفعہ اسے جہاز کو لندن سے ا مریکہ لے جانا تھا آٹھ گھنٹے کی اس طویل پرواز میں جہاز سمندر پر اڑتا ہے۔ جہاز کو پرواز کئے چار گھنٹے گزر چکے تھے کچھ مسافر سو رہے تھے کچھ جاگ رہے تھے۔ اچانک سپیکر پر کپتان کی آواز ابھري ”خواتین و حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاز کا کپتان پرنام آپ سے مخاطب ہے۔ نیو یارک جانے والی پرواز پر ہم چار گھنٹے کا سفر کر چکے ہیں ہم اس وقت بحراوقینانوس کے عین درمیان ہیں”اگر آپ کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ جہاز کے چاروں انجنوں میں آگ لگی ہے’ اگرآپ جہاز کے پچھلے حصے میں جاکر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ جہازز کی دم چند لمحوں بعد ٹوٹ کر علیحدہ ہو جائے گی” اگر آپ جہازکی کھڑکی سے نیچے سمندر میں دیکھیں تو آپ کو پیلے رنگ کی چھوٹی سي لائف بوٹ نظرآئے گی، جس میں سوار تین آدمي آپ کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں”‘‘یہ تین آدمي، میں پرنام سنگھ، میرا معاون پائلٹ کورنام سنگھ اور نیوی گیٹر بنتاسنگھ ہیں۔ سپیکرپر جو آواز آپ سن رہے ہیں وہ پہلے سے ریکارڈ شدہے، واہِ گروہ آپ کو اپنی پناہ میں لے ، اجازت چاہتا ہوں ست سري اکال،۔۔۔۔۔۔

پرنام سنگھ بھلا آدمی تھا اس نے جہاز کرش کرانے سے پہلے ہی اپنے آپ کو بچا کر باقیوں کے لئے پیغام تو ریکارڈ کیا اور کسی کو اس پریشانی میں مبتلا تو نہیں کیا کہ آخر جہاز کو کس نے کرش کرایا ،ہمارے بار کونسل ،تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور عوامی ایکشن کے جہاندیدہ سیاسی پائلٹ تو اقرار جرم بھی نہیں کر رہے کہ گلگت بلتستان کی نوجوان نسل ،اور قوم کومسلم لیگ ن کے دئے گئے آآرڈر 2018 کیخلاف فتوے بازی کرتے ہوئے عبوری ،صوبہ ،آئینی صوبہ ،اور آزاد کشمیر طرز کے نظام کا کہہ کر سپریم کورٹ کی طرف پرواز کی ،اس پرواز میں ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نوجوانوں اور سیاسی نابالغوں کی اکثریت سوار تھی ،

دو دن قبل خبر آئی کہ یہ پرواز کرش ہو چکی ہے لیکن اس پرواز کے پائلٹ سلامت ہیں ۔قوم کی امیدوں کا جہاز تو ان پائلٹوں نے کرش کر دیا لیکن ان کی خبر نہیں تھی کہ ہیں کہاں ،اچانک دیکھا تو گلگت بلتستان کے اخبارات میں بیانات کی صورت اور آل پارٹیز کانفرنس میں نظر آئے ،،،،یہ کیا جہاز انہوں نے خود گرایا ،اب الزام سپریم کورٹ پر لگا رہے ہیں ،اور کچھ جذباتی لوگ ریاستی اداروں پر دشنام طرازی ،اور کچھ ننگ وطن اشاروں کنایوں میں گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں احساس بغاوت کو جنم دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ،،،

مسلم لیگ ن نے ایک نظام دیا تھا اس میں ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی آسمانی صحیفہ تھا کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے ،گلگت بلتستان اسمبلی میں اس پرسیر حاصل بحث کر کے اتفاق رائے سے آزاد کشمیر کی طرح ایکٹ بنا سکتے تھے ،جب ایکٹ منظور ہوتا تو وزیر اعظم نام کی جگہ وزیر اعلی ہوتا صدر کی جگہ گورنر ہوتاجو اختیارات آزاد کشمیر کے صدر کے ہیں وہ ہمارے گورنر کے پاس ہوتے اور جو اختیارات وزیر اعظم کے ہیں وہ ہمارے وزیر اعلی کے پاس ہوتے ،کشمیر طرز کی حکومت ہمیں مل جاتی،لیکن ہوا کیا کہ جیسے مریض کو معمولی بخار ہو تو اسے جوشاندہ یا ایک زکام کی دوائی سے افاقہ ہو سکتا ہے اگر اسی زکام کے مریض کو کینسر کی دوا دی جائے تو ضروری ہے کہ اور کئی امرض پیدا ہوں گی ،ہمارے نیم سیاسی حکیموں نے گلگت بلتستان کے ساتھ بالکل یہی کچھ کیا کہ زکام ہو گیا تھا اور دوا ئی دی گئی کینسر کی ،اور اب وہی سیاسی حکیم اپنی غلطی تسلیم کر کے قوم سے معافی مانگنے کے بجائے سپریم کورٹ کو الزام دے رہے ہیں ،

میرا اقانونی ماہرین سے معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ سپریم کورٹ نے تو پاکستان کے آئین کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے اور آئین پاکستان سے گلگت بلتستان باہر ہے ،پھر آپ سپریم کورٹ کے پاس لینے کیا گئے تھے؟ایسے نہیں چلے گا ،اب 1970کی دہائی نہیں کہ قوم کو گمراہ کرنے کے لئے مسلک کی پھکی دے کر مفادات کا کھیل کھیلا جائے ،اب 2019ہے بابا ،،،،دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اپ نہ دھن چھپ سکتا ہے نہ مفادات کا گند،،،،حل ایک ہی ہے کہ قوم سے وہ سب سیاسی نابالغ معافی مانگیں جنہوں نے قوم کے جذبات کے ساتھ کھلوارڑ کیا ہے۔ پرنام سنگھ کا شکریہ اس نے جہاز کے کرش ہونے کا پیغام تو ریکارڑ تو کرایا تھا ہمارے سیاسی پائلٹوں نے تو وہ بھی گوارا نہیں کیا۔قارئین ملتے ہیں بریک کے بعد آپ راحت اندوری کی ایک خوبصورت غزل پڑھیں۔

جو منصبوں کے پجاری پہن کے آتے ہیں

کلاہ طوق سے بھاری پہن کے آتے ہیں

امیر شہر تری طرح قیمتی پوشاک

مری گلی میں بھکاری پہن کے آتے ہیں

یہی عقیق تھے شاہوں کے تاج کی زینت

جو انگلیوں میں مداری پہن کے آتے ہیں

ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے

قمیصیں لوگ ہماری پہن کے آتے ہیں

عبادتوں کا تحفظ بھی ان کے ذمے ہے

جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button