کالمز

فکر فردا – اپر چترال میں بجلی کا شدید بحران

کریم اللہ

اپر چترال  گزشتہ چار برسوں سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے۔دوہزار پندرہ عیسوی کے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے چترال ابھی تک نہیں نکل پائے اس سیلاب نے جہاں سڑکوں کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا ،وہیں اپر چترال کے بڑے حصے او ر لوئر چترال کے کچھ علاقوں کو بجلی جیسی نعمت سے مستفید کرنے والا چار اعشاریہ دو میگاواٹ کے واحد ریشن بجلی گھر کو بھی جزوی طور پر نقصان پہنچا لیکن حکومت نے تاحال اس بجلی گھر کی دوبارہ بحالی یا علاقے کے لوگوں کو متبادل بجلی کی فراہمی کے لئے کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔

تاریخی طور پر دیکھاجائے تو اپر چترال انتہائی پسماندہ خطہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ چرس کاشت کرکے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔  اسی اور نوے کی دھائی میں حکومت پاکستان نے چرس کی کاشت ختم کرنے کے بدلے میں علاقے میں  بجلی گھر بناے کا فیصلہ کیا اور جرمنی کے تعاون سے ریشن کے مقام پر چار اعشاریہ دو میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل بجلی گھر کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ اس بجلی گھر سے اپر چترال کے علاوہ لوئر چترال کے بعض علاقے بھی مستفید ہورہے تھے۔  علاقے کی بدقسمتی کہ جولائی دو ہزار پندرہ کو ریشن آبی نالے میں شدید  طغیانی آئی جو  اس بجلی گھر کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا جس کی تاحال بحالی اور علاقے کو بجلی کی فراہمی ممکن نہ ہوسکیں۔

ریشن بجلی گھر سے کم و بیش سترہ ہزار گھرانے مستفید ہورہے تھے جبکہ پیڈو ذرائع کے مطابق بجلی گھر سے  چالیس سے پنتالیس لاکھ روپے  ہر ماہ آمدن مل رہی تھی ۔ گزشتہ چار سالوں سے نہ صرف حکومت اچھے خاصے آمدنی سے محروم رہی  بلکہ عوام بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔

جب پچھلے سال گولین گول کے مقام پر ایک سو چھ میگاواٹ بجلی گھر تیار ہوا تو شدید عوامی دباؤ کے باعث اپر چترال کو وہاں سے بجلی فراہم کی گئی ۔ چونکہ گولین بجلی گھر واپڈا کے زیر انتظام ہے جبکہ اپر چترال کے سارے ٹرانزمیشن لائن پیڈو کی ملکیت ہے ابھی تک دونوں اداروں کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا اس کے علاوہ پیڈو کے ٹرانزمیشن لائن میں صرف تین سے چار میگاوٹ وولٹیج کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہےاور اس وقت اپر چترال کو سات سے آٹھ میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے۔  اس سارے تناظر میں دیکھاجائے تو بیچارے عوام رل رہے ہیں ۔ اس وقت اپر چترال کے مختلف علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوری ہے   علاقے میں  درجہ حرارت منفی 23 ڈگری سنٹی گریڈ تک گر چکی ہے ۔ اتنے کڑاکے کی سردی اور اوپر سے بجلی کی عدم دستیابی نے عوامی مشکلات کو دو بھر کردیا  ہے۔ جس کی وجہ سے عوام  سڑکوں میں  نکلنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، اس سلسلے میں گزشتہ روز اپر چترال کے ہیڈکوارٹر بونی میں تحریک حقوق عوام اپر چترال نامی تنظیم کے زیر انتظام شدید احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ،جس میں اپر چترال کے کونے کونے سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، جلسے کے شرکاءنے دھمکی دی ہے کہ اگر بارہ فروری تک اپر چترال میں جاری بجلی کا یہ بحران حل نہ ہوا تو گولین گول بجلی گھر کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا ۔ جلسے کے مقریرین نے تین مطالبات رکھے ہیں جن میں سے پہلا مطالبہ اپر چترال کے لئے الگ گرڈ اسٹیشن کا قیام، دوسرا ٹرانزمیشن لائینوں کی جلد ازجلد بحالی جبکہ تیسرا  اپر چترال کے لئے جوٹی لشٹ گرڈ اسٹیشن میں الگ  سے سات  میگاواٹ ٹرانسفر کی تنصیب شامل ہے ۔ اس سے قبل ایم پی اے چترال مولانا ہدایت الرحمن نے بھی اپر چترال کا دورہ کرکے چالیس دن کے اندر اندر کسی نہ کسی صورت سات میگاواٹ کے ٹرانسفر کی تنصیب کا وعدہ کرکے گئے ہیں  یہ ڈیڈ لائین 28 فروری کو مکمل ہونے والی  ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ  اپر چترال میں بجلی کے حوالے سے جاری تحریک کس حد تک کامیاب ہو گی۔ تاہم اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانا قیادت پر لازم ہے کیونکہ اگر یہ تحریک کسی بڑے معاہدے کے بنا  اختتام پزیر ہوئی  تو ابدی لوڈ شیڈنگ اپر چترال کا مقدر بنے گیج۔

 قانون یہ ہے کہ جہاں بھی بلوں کی سو فیصد ریکوری ہوتی ہے وہاں زیرو فیصد لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے ۔ اپر چترال پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں بجلی کے بلوں کی سو فی صد ریکوری ہوتی ہے مگر بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ یہاں  دس دس بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ بھی عوام کا مقدر بن چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ  اپر  چترال کے لوگوں نے اپنی استعمال سے بہت زیادہ بل ادا کئے ہیں چونکہ  علاقےمیں میٹرریڈنگ کا کوئی انتظام  نہیں اوپر سے لوڈ شیڈنگ کیوجہ سے بجلی کا استعمال نہیں ہورہا ہے اور میٹر ریڈنگ کے بنا دھڑا دھڑ  بل بھیجے جارہے ہیں جس کی وجہ سے سرکار اور بجلی ترسیل کرنے والے ادارے  چترالی عوام کے کروڑوں روپے کے مقروض ہے۔خیبر پختونخواہ حکومت کی نااہلی اس بات سے بھی عیان ہے کہ ریشن بجلی گھر کی دوبارہ بحالی کے بجائے اربوں روپے سبسڈی سے علاقے میں  سولر تقسیم کر رہے ہیں  ابھی اس مد میں کم از کم دو سے تین ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں اگر یہ رقم ریشن بجلی گھر کی دوبارہ بحالی کے لئے مختص کیا جاتا تو کب کے علاقے سے اندھیروں کا خاتمہ ہوجاتے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button