کالمز

سوال ہینزل پاور پراجیکٹ کا …. سیخ پا کیوں؟

بعض اوقات انسان کی نظروں سے ایسے الفاظ گزرتے ہیں یا دکھائی دیتے ہیں جن کو پڑھنے کے بعد انسان کے اندر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ایک احساس جاگ اٹھتا ہے اور کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے دل کے اندر ایک ہوک سی اٹھتی دکھائی دیتی ہے یا دل ہول ساجاتا ہے۔ اس سے زیادہ دکھ یا درد اس وقت ہو جاتا ہے جب سمجھ بوجھ اور سوچ بچار رکھنے والے ذہن بھی جملے کا یا لفظ کا مطلب غلط ا خذ کریں اور شخصیت پرستی میں بات کا صرف اس لئے مخالفت کریں کہ یہ بات ان کے قائد کے حق میں نہیں ۔پہلے تو میں خود اپنے سیخ پا ہونے کی وجہ بتا دوں یہ نہیں کہ مجھے کسی نے غلط الفاظ یا بُرے القاب سے پکارا تھا ہرگز نہیں ایسی کسی بات پر سیخ پا ہونے کی وجہ نہ مناسب ہے اور نہ ہی اس کو اچھا تصور کیا جاتا ہے میرے سیخ پا ہونے کی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ میری بات کا کچھ لوگوں نے غلط مطلب لے کر اسے اپنی دانست میں اپنی حکومت یا قائد کی مخالفت سمجھ لیا جیسا پہلے اس کا ذکر کرچکا ہوں ۔

اب آتے ہیں ان صاحبان کی طرف جو میری بات پر آگ بگولہ یا ناراض یا سیخ پا ہوئے ۔گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کوئی قدیم یا بہت پُرانی نہیں بس یہی کوئی پندرہ سالوں پر محیط اس کی کہانی ہے ۔ ابھی اس میدان میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرور ت ہے ابھی تک ہم لوگ شخصیت پرستی اور تعصب کی دنیا میں جی رہے ہیں اور یہی باتیں ہمیں اپنے خول سے باہر نکلنے نہیں دیتی ہیں۔ معمولی باتوں کا بتنگڑ بنانا بھی ہماری عادتوں مین شامل ہے اور یہ رحجان یا عادت بھی جاتے جاتے بھی وقت تو لے لیگی ۔آج کی دنیا خاص کر سوشل میڈیا کی دنیا جہاں ہر شخص اپنی جگہ آپ سیر تو میں سوا سیر والے ذہن سے براجمان ہو تو کمنٹس کی شکل میں ایسے خوبصورت اور پیارے الفاظ پڑھنے کو مل جاتے ہیں جو ایک اور نئی کہانی کو جنم دینے میں بڑے ہی مددگار ثابت ہوتے ہیں کچھ ایسا ہی میرے ایک سوال کے ساتھ ہوا ۔سوال میں نے کیا پوچھا جیسے میں نے کسی کو گالی دی ہو نہیں بھائی ہم کسی کو گالی کیا دے سکتے ہیں جبکہ ابھی تو ہم ٹھیک طرح سے لکھ بھی نہیں سکتے۔اب یہ سوال قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور ان سے ہی رائے لیتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ اس سوال میں کہیں کوئی غلطی یا کسی کے لئے نفرت کا اظہار ہوتا ہو ۔

میرا سوال وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے نلتر ایکسپریس وے کے افتتاح کے موقع پر ہینزل پاور پراجیکٹ سے تھا ۔ماشا اللہ سے بڑی خوشی ہوئی جب اس شاہراہ کا افتتاح وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کیا مگر دوسرے ہی لحمے ہمیں یاد بھی آیا ارے بھائی یہ کیا ؟نلتر ایکسپریس وے اور ہینزل پاور پراجیکٹ کی منظوری تو جنوری 2015 میں ایک ہی دن ہوئی تھی اور ان منصوبوں کے لئے فنڈ بھی مختص ہوئے لیکن ان میں اتنی دیری کیسی ۔ ایک ارٹیکل اس حوالے سے منظوری کے بعد پراجیکٹ کی تاخیر کے حوالے سے ” ہینزل پراجیکٹ میں تاخیر کیوں؟” 2015 میں تحریر کیا تھا ۔جس میں پراجیکٹ کا ایکنک سے منظور ہونے کے بعد اس پر تاخیر کے بارے تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔اس کے بعد بھی اس پراجیکٹ کی اہمیت اور گلگت میں بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی ضروریات اور پراجیکٹ کی معاشی فوائد کے بارے حکومت وقت کو یاد دہانی کرانا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہوئے یاد دلاتے رہے ہیں ۔ اب کی بار بھی اسی نلتر پراجیکٹ کے کام کے آغاز پر پھر سے اس اہم ہینزل پاور پراجیکٹ کے بارے ایک سوال "نلتر ایکسپریس وے اہم تھا یا ہینزل پاور پراجیکٹ ؟”کے ذریعے حکومت کی توجہ دلانی چاہئی تو یہ بات کچھ دوستوں اور بھائیوں کو بُری لگی ۔ ان کے نزدیک لگتا یہی ہے کہ اس سوال کے ذریعے ہم نے نلتر ایکسپریس پراجیکٹ کی مخالفت کی ہے ۔بس پھر کیا تھا کسی نے اس پراجیکٹ کو ایئر فورس کا بتا دیا کسی نے کہا کہ کہ یہ آرمی کے اپنے فنڈ سے تعمیر ہوگا کسی نے بتا دیا کہ نلتر میں پاکستان ایئر فورس کا سنٹر ہے سیکنگ مرکز ہے اس ایکسپریس کا بننا ضروری اور لازمی ہے ۔یہاں غیر ملکی سیاح اور ایمبیسڈر ز اور وی ائی پیز آتے ہیں ۔اب ان باتوں کو سن کر آپ ہی بتائیں کہ سیخ پا ہمیں ہونا چاہئے تھا یا ہمارے سوال پر ان کو ؟میں تو کہونگا کہ سیخ پا ہونے کا حق ہمارا تھا۔

ہمیں نلتر کی خوبصورتی اور سیاحتی مقام ہونے سے ہر گز انکار نہیں ، ہمیں شکوہ اس بات کا ہے کہ پراجیکٹ اہمیت اور علاقے کی ضرورت کے تحت ترجیح نہیں پاتے بلکہ پراجیکٹ بھی وی آئی پی اور بڑے لوگوں کی تفریح اور عیاشیوں کو دیکھ کر ہی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں ۔ گلگت کو تاریکی میں ڈبو کر اٹھارہ اٹھارہ کی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور چھوٹے کاروباری حضرات جن کا روز گار بجلی کے ساتھ وابستہ ہے انہیں بے روز گار بنا کر آپ اس ایکسپریس وے میں کن لوگوں کی موٹریں چلوانا چاہتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں بھی تلو پرندے اور مور کی افزائش نسل کرکے شیخوں سے ڈالر کمانے کا ارادہ ہے۔اس کے علاوہ تو ہمیں اس ایکسپریس وے کا فی الحال اور کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا ۔ اب تو دل میں ایک اور آرمان بھی جاگ گیا ہے کاش "یانسپر کھنڈ” میں بھی برف باری ہوتی یہاں بھی ایئر فورس کا سنٹر ہوتا تو شائد ہینزل پاور پراجیکٹ کے لئے فنڈ جو پہلے ہی مختص کئے گئے ہیں جلد ریلیز ہوتے اور اس پراجیکٹ پر کام شروع ہوتا ۔ جب تک اس پراجیکٹ پر کام شروع نہیں ہوتا شائد یہ خواہش ہمارے دل سے کبھی نکلے ۔ ہم کسی پراجیکٹ کے خلاف نہیں اور نہ ہی کسی فرد واحد کے۔ ہم اجتماعی مفاد کو مقدم سمجھتے ہیں اسی سوچ کے تحت ہمارا اب بھی یہی خیال ہے کہ اس اہم بجلی کے پراجیکٹ پر جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی گلگت تاریکیوں میں چلا جائیگا ۔ گزارش ارباب اختیار سے اتنی ہے کہ معاشی اہمیت کے حامل اس پراجیکٹ پر جلد سے جلد کام شروع کیا جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں بجلی کے بحران کا سامنا نہ ہو۔ہمارا سوال اسی حوالے سے تھا نہ کہ کسی کی مخالفت اور کسی تعصب کی بنا پر اب اس سوال پر دوستوں کا ناراض ہونا اور سیخ پا سمجھ سے بالا دکھائی دیتا ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button