چلاس کا عبد الخالق فتح
تحریر: فیض اللہ فراق
مرشد اقبال برسوں قبل کہہ چکے ہیں کہ ” ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی” یہ مصرعہ کاروان حیات کے متنوع مرحلوں پر زندگی کی عملی تفسیر بنتا جا رہا ہے جب ہم مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب لوگوں کو دیکھتے ہیں ‘ جب ہم ملک بھر کے دور افتاد علاقوں کے مکینوں کو قومی سکرین پر شاداب دیکھتے ہیں’ جب ہم غریب گھرانوں اور نامعلوم علاقوں کے نوجوانوں کو معلوم اور معروف سٹیج پر دیکھتے ہیں اور زیرو سے سفر کرنے والوں کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہیرو بنتے دیکھتے ہیں۔
چلاس شہر سے متصل وادی کھنر سے تعلق رکھنے والے عبد الخالق فتح نے اپنی صلاحیتوں کے سہارے قومی سطح کی کرکٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ملتان سلطان کی ٹیم میں بطور بیٹسمین کھیل رہے ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ گلگت بلتستان بالخصوص چلاس کی نوجوان نسل میں خداداد صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسل خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی سوچ کو مثبت سمتوں پر استوار کرتے ہوئے آگے بڑھیں’ زندگی کی سکرین پر بڑا خواب دیکھیں’ دوسروں کے معاملات میں گھس کر وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ وقت اپنی بھلائی پر خرچ کریں’ منفی سوچ کا جواب مثبت رویے سے دیں اور اندھیرے کا جواب شمع روشن کر کے دیں۔ پھر دیکھیں زندگی کے سفر پر کتنے نامعلوم چراغ آپ کو رستہ دکھاتے ہوئے استقبال کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں ٹیلینٹ کی کوئی کمی نہیں۔ یہاں زندگی کے تمام میدانوں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور کامیابی جن کی منتظر ہے ۔
عبد الخالق فتح گلگت بلتستان کا سوفٹ امیج ہے اور چلاس کا کامیاب و خوبصورت چہرہ بھی۔ دنیا میں لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن کامیاب لوگوں کی بہت کمی ہے ۔ کامیاب لوگوں میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ نیتوں کا صاف ہونا ہے ۔ صاف دل اور انسانیت کیلئے نیک نیت رکھنے والے افراد زندگی کی دنگل میں ناکام نہیں ہوتے بلکہ عبد الخالق فاتح کی طرح فاتح بن کر ابھرتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔
ہنزہ کی بیٹی ثمینہ بیگ نے اس سے پہلے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر پاکستان کا پرچم بلند کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئی ہے ‘ ہمیں منفیت کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی سوچ میں مذید ترمیم کرتے ہوئے امید کی طاقت کو مستحکم کرنا چاہئے ۔ زندگی کے تمام شعبہ جات کامیاب لوگوں کے منتظر ہیں۔ گلگت بلتستان کی نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں اور ذہنی اپروچ میں کسی بھی صوبے کے نوجوانوں سے کم نہیں ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ محرومی کا ایک خود ساختہ درس نے نوجوان نسل کی پوٹینشل کو زنگ آلود بنا دیا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اپنی اقدار پر فخر کرتے ہوئے اپنی ذات اور پوٹینشل کو بھی امید بھری نگاہوں سے دیکھنا چاہئے ۔
گلگت بلتستان کے شاہد اللہ بیگ 22 گریڈ تک ترقی پا کر ملکی سطح کی بیوروکریسی میں اپنا لوہا منوا سکتا ہے اور گانچھے کے شہید پولیس افسر پولیس کے شعبے میں ترقی کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تاریخ کا انمٹ حوالہ بن سکتا ہے تو کیوں نہ گلگت بلتستان کے نوجوان پوری ریاست کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتے ہیں ؟
ضروری امر یہ ہے کہ ہم محدود کی بجائے لامحدود سوچ اپنائیں اور خلوص دل کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ منزلوں کا راہی ہمارے نوجوانوں کی رہبری کرے ۔