کالمز

جوش نہیں ہوش۔۔!

جب بھی ہمارے ہاں کوئی چھوٹا موٹا ایشو پیدا ہوجاتا ہے تو ہمارے لوگ جمپ لگا کر جذبات کی گاڑی میں سوار ہوجاتے ہیں۔ اور سب پہلی چیز جو وہ اس گاڑی میں لادتے ہیں وہ مذہبی منفرت اور تفریق ہوتا ہے اس کے بعد علاقیت اور رنگ و نسل۔ہمارا معاشرہ ہمیشہ سے اس طرح نہیں تھا اس تیز طبعی کے پیچھے دراصل پیچھلے چند عشروں میں غیر مقامی ‘نظریات’ کی امد اور پھر ہمارے لوگوں کا بیغیر کسی سوچ بچار کے ان نظریات خیالات اور فرسودہ رسوم کا اپنانا ہے۔ مقامی سطح پر مقامی روایات کی عدم تعلم و ترویج کی وجہ سے مقامی جذبہ خیر سگالی بھائی چارہ اور ایک دوسرے کا خیال اب معدوم ہوتا گیا۔ ہمارے لوگوں نے ایک طرف عجیب و غریب قبائلی طرز فکر کو اپنانا شروع کیا وہی غیر ملکی عادات و روایات کو بھی بنا چون چورا اپنا لیا۔ پھر دس سے زیادہ تعلیمی نصاب نے معاشرتی تقسیم میں مزید دراڑ پیدا کردیا۔ اس سے مذہب فروش، سیاسی تنگ نظروں اور این جی اوز بابوؤں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اج ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم ہیں کون؟ ہماری پہچان ہم خود نہیں نہ ہی ہمارا علاقہ ہے بلکہ ہماری پہچان باہر کے قبائیلی نظام غیر ملکی عادات تنگ نظر سوچ جذباتیت اور بیغیر دلیل اور منطق کی باتیں ہیں۔
 باشعور افراد کسی مسلے کو عقل و دانش سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسائل کو الجھانے کے بجائے سلجھاتے ہیں تاہم ہمارے ہاں یہ  رواج ناپید ہوتا جارہا ہے۔ نیم  حکیم خطرہ جان ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے کی نیم خواندگی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ مسلے جب پیدا ہوتے ہیں تو ان مسائل سے متاثرہ بندے کو انصاف اور سکون مہیا کرنے کے بجائے اس مسلے کو ہائجیک کرکے لوگ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اخلاقیات کا موضوع ایک ایسی چیز ہے جس پر بات کرکے میں تھک چکا ہوں اور بار بار دھرانے سے اچھا بھی نہیں لگتا۔لوگ اس قدر ہوس کے پجاری ہو چکے ہیں کہ ان کو اپنے زاتی مقاصد کے لیے اخلاقی کوڈ اف کنڈکٹ کو روندتے ہوئے زرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ دوسری طرف کمزور رائج الوقت قوانین اور پھر ان پر سست روی سے عمل درامد نے اپنا کام دیکھایا ہے۔
ہمارے جذباتی پن کی عادت سے مسائل تو حل نہیں ہوتے تاہم مزید مسائل ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ قتل و غارت جنسی زیادتی اور خودکشی کی اڑ میں نوجوانوں کی زندگی سے کھلواڑ کے کتنے ہی دلخراش واقعات ہوئے ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نتیجہ کیا نکلتا اوّل تو مذہبی سیاسی لوگوں نے پھر این جی اوز نے پہلے ان کو ہائجیک کیا پھر اس مسلے کو قانون کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے بعد مسلے کو ہی دبا کر رکھ دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو مجرموں کو قرار واقعی سزا ملی اور نہ ہی مظلوموں کو انصاف ملا۔
ضلع غذر کے تحصیل اشکومن میں طالب علم دیدار حسین کا قتل ہوا اٹھ سے زائد ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان درندوں نے اس معصوم بچے کو قتل کرکے دریا برد کرنے سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کیا یہ ایک ظلم ہوا ہے۔ تاہم یہ ظلم پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی اخری بار۔ سینکڑوں معصوم لوگ قتل ہوئے ہیں جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ مجرم کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے تاکہ جرائم کا تدارک ہوسکے اور یہ ہر ایک مہذب انسان کا مطالبہ ہے۔
لیکن میں نے نوٹس کیا ہے کہ کچھ لوگ دیدار حسین کے اس معاملے میں ہوش سے زیادہ جوش سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نریندر مودی جیسی حرکتیں نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ لوگ اس کو علاقائی اور کچھ اس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی نظر آئے جو اس کو رنگ و نسل کے ساتھ باندھتے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر کچھ سیاستدانوں مذہبی راہنماوں اور دوسرے لوگوں کا نام لے کر بتایا جا رہا ہے کہ وہ اس ایشو کو اپنے زاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بھائیوں اور بہنوں ایسی حرکتیں نہ کیا کریں۔ مجرم گرفتار ہیں قانون کی گرفت میں ہیں ان کو قانونی طریقے سے سزا دینے کی بات کریں اور دباو بھی قانونی طریقے سے ڈالیں۔ اوٹ پٹانگ جوشیلے تقریریں کرنے سے وہ  ایک فیصد انتہا پسند فائدہ اٹھائیں گے جو ایسے کسی نازک صورتحال کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ایک مسلے کو سلجھاتے ہوئے دوسرا مسلۂ نہ کھڑا کریں۔ اس سے دہشت گردوں کے سوا کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔
چاہیے مقامی مذہبی راہنما ہوں یا سیاسی یہ ہمیشہ اپنے بجائے اپنے غیر مقامی آقاؤں کی زبان بولتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی ان حرکتوں سے علاقے میں کیا مسائل پیدا ہوں گے۔ ان کو تو بس اپنے مقاصد کی تکمیل چاہئے۔ دوسری طرف اپ جس بھی مذہب رنگ نسل یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں اپ کا جینا مرنا ایک ہے۔ آپ کا علاقہ ایک ہے اپ کا رسم و رواج ایک ہے۔ اپ کے اپنے منفرد اخلاقی اقدار ہیں جو صدیوں کے دامن میں پل بڑھ کر یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ اپ کی پہچان رواداری صبر اور حسن اخلاق ہے۔ آپس میں بھائی چارہ ہے۔ کیا اپ کو احساس نہیں کہ پچھلے تین چار دہائیوں میں غیر مقامی نام نہاد مذہبی ٹولوں اور این جی اوز کی امد سے اپ کے اخلاقی اقدار کو کتنا نقصان پہنچ چکا ہے؟ ان کی نام نہاد تعلیمات سے کس قدر منفرت اور عدم برداشت کا کلچر پیدا ہوچکا ہے؟ انھوں نے کس قدر اپ کی پہچان بگاڑ کر رکھ دیا ہے؟ زرا سوچیں!
میری گزارش ہے کہ نوجوان نسل اپنے اقدار اور اپنی ثقافت اور برداشت کے کلچر کو مزید ہائجیک نہ ہونے دیں۔ مذہب فرقہ سیاست یا کسی فکری نظریے سے پہلے بھائی چارگی کی بات کریں۔ بگاڑ سے پہلے ملاپ کی بات کریں۔ الجھانے سے پہلے سلجھانے کی بات کریں۔ جذبات سے پہلے عقل اور منطق سے بات کریں۔ کسی اور کے ہاتھ کا کھلونا بننے سے پہلے اپنی طاقت اور اپنے ارادے پر بھروسہ رکھیں۔ اپنے بھائی سے دشمنی نہیں دوستی کے بارے میں سوچیں۔ اپنے ہمسائے کو دیوبند اسماعیلی بریلوی وہابی اثنائے عشری نور بخشی کہنے سے پہلے اپنا بھائی سمجھے۔ یہی تمام مذاہب تمام اخلاقی نظریات کی آفاقی تعلیم ہے۔ براہ کرم خود کو اپنے علاقے اپنے لوگوں کو اپنے کلچر کو اپنی اقدار کو دوسروں کے ہاتھوں ہائجیک نہ ہونے دیں۔
ہم سب کا مطالبہ ہے کہ دیدار حسین سمیت سب مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ اور اس مخصوص کیس میں کیونکہ پورا ایک گینگ ملوث ہے لہذا ان مجرموں  کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ تاکہ آئیندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔ جب تک اس مسلے کے بارے میں عدالتی فیصلہ نہیں اتا اپنے اپ پر اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button