کالمز
تخت گلگت بلتستان اور سیاسی جماعتیں
انگریزوں کے دور میں ہندوستان میں وہی کچھ ہوتا تھا جو برطانوی پارلیمنٹ چاہتی تھی۔ اج کل وہی ماحول گلگت بلتستان میں ہے۔ گلگت بلتستان میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اسلام اباد میں ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان میں اس پارٹی کی حکومت آتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں وہاں پی پی پی کی حکومت رہی پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں پی ایم ایل این کے حکومت آگئی۔ یہ ایک روایت بن گئی ہے۔ اب چونکہ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے تو پی ٹی ائی گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کو یہ قوی امید ہے کہ اب کی بار وہی جی بی میں حکومت سازی کریں گے۔ گلگت بلتستان کے آئینی سیاسی انتظامی اور معاشی مسائل کو سامنے رکھا جائے تو یہ روایت ایک بدقسمت حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس بار زمینی حقائق اور مختلف سیاسی جماعتوں کی تنظیم سازی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو فی الوقت ایک مختلف صورتحال نظر اتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اس وقت جی بی میں اقتدار میں ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ نواز لیگ حکومت میں ہونے کے باوجود مختلف وجوہات کی وجہ سے بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ سیاسی اور انتظامی مشکلات کے علاوہ عوام میں تیزی سے غیر مقبول ہوتی ہوئی نواز لیگ بہت سارے خود ساختہ مسائل میں گھیری ہوئی ہے۔ چیف منسٹر اور ان کے وزرا بیوریو کریسی کے ہاتھوں اختیارات کی رسا کشی میں مبتلا ہیں۔ جبکہ خود پارٹی کے اندر واضح گروپ بندیاں معروض وجود میں ائیں ہیں۔ حکومت لوگوں کو مطمعین تو کیا کرتی روز نئے چھوٹے موٹے جھگڑے لڑیاں پیدا کرکے خود اپنے مسائل میں اضافہ کررہی ہے۔ جبکہ عوام کی نظر میں نواز لیگ کی مثال ڈوبتی کشتی کی سی ہے۔ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ کشتی مکمل طور پر ڈوب جائے اور ایک اور نئی کشتی لنگر انداز ہوں۔
اب بظاہر یہ نئی کشتی پاکستان تحریک انصاف کی ہی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف گلگت بلتستان کوئی منظم سیاسی جماعت نظر نہیں آتی۔ اج تک اس کی واضح قیادت کا کوئی آتہ پتہ نہیں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر کون ہے کسی کو علم نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جی بی میں اپنا گورنر ضرور تعینات کرچکے ہیں لیکن منظم تنظیم سازی ابھی تک نہیں ہوئی۔ دوسری طرف موجودہ قیادت میں دراڑیں اور آپسی لخزشیں بلکہ لڑائی جھگڑے ضرور نظر آتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ جی بی میں نواز لیگ اور پی ٹی ائی ایک ہی قسم کے بحران سے گزر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی گلگت بلتستان چند ایک لوگوں کو اٹھا کر باقی مفاد پرستوں اور ابن الوقتوں کا گینگ ہے۔ یہ چند کارکن اپنی اپنی انفرادی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں جبکہ مفاد پرستوں اور ابن الوقتوں کا یہ انتظار ہے کہ کب الیکشن ہوجائے اور یہ جی بی میں وزیر کبیر بنیں۔ ماحول ظاہر ہے اب پی ٹی ائی کے لیے سازگار ہے مرکز میں اس کی حکومت ہے یعنی میدان خالی پڑا ہے تاہم مفاد پرستوں کی یہ خواہش ان کی خوش فہمی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد خاص کر جوانوں کی نظر پی ٹی ائی پر ضرور ہے لیکن منظم قیادت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ان کی نسبت امجد حسین نے پی پی پی کو زبردست طریقے سے منظم کیا ہوا ہے۔ امجد اور ان کی ٹیم نے پی پی پی کی جس طرح تنظیم سازی کی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں پی ٹی ائی کو الیکشن میں بھی ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے۔ بلکہ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو امجد حسین نے پورے گلگت بلتستان کو فی الحال اپنی سائیڈ میں کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا اور صاف شفاف الیکشن ہوئے تو امجد اور ان کی پارٹی کی جیت یقینی ہے۔
دوسری طرف اگر پی ٹی ائی جی بی کی بات کی جائے تو اس میں چار قسم کے لوگ ہے؛ خوش فہمی میں مبتلا نیم ملا، اثرورسوخ والے، پیسے والے امیدوار، وہ لوگ جو خود تو سائیڈ پر ہیں لیکن جن کو امید ہے کہ پی ٹی ائی کچھ نیا کریگی۔
پی ٹی ائی گلگت بلتستان میں خوش فہمی میں مبتلا گروپ وہ ہے جس نے پہلے ہی پارٹی کے اندر اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم ان کو یہ خوش فہمی ہے کہ مرکز میں ہماری حکومت ہے تو جی بی میں بس الیکشن کی دیر ہے انتخابات ہوتے ہی وہاں بھی ہماری حکومت ہوگی اور پھر موجیں ہی موجیں۔ پی ٹی ائی میں دوسری قسم کا گروپ اثرورسوخ والے لوگوں کا ہے یہ لوگ اپنے اثرورسوخ سے گورنر سے لیکر چھوٹے موٹے مشیر بننے کے مضبوط امیدوار ہیں۔ تیسری قسم کا گروپ پیسے والے لوگوں کا ہے، ان کو امید ہے کہ جس طرح پاکستان کے گزشتہ انتخابات میں پی ٹی ائی نے دولتمند لوگوں کو ٹکٹیں دی تھی تاکہ وہ الیکٹ ہوسکے اسی طرح ان کو بھی ٹکٹ ملنے کے امکانات ہیں۔ اور چوتھی قسم کے گروپ میں وہ لوگ وہ ہیں جن کو اس بات کا پتہ ہے کہ ان کو زاتی طور پر کچھ ملنے والا نہیں تاہم پارٹی ضرور جیت جائیگی اور حکومت سازی کریگی۔ یہ بے لوث اور مخلص لوگوں کا گروپ ہے جو چلاک لوگوں کی سیاست میں سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے کچھ وزیر اور سیاسی کارکن بھی ابھی سے پی ٹی ائی جوائن کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اگلی حکومت میں ان کی شمولیت یقینی ہوجائے۔ ان میں بلتستان سے ایک بہت پرانا سیاسی کھلاڑی بھی شامل ہے جو گلگت بلتستان کی سیاست سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے گینگ اف سکس کا حصہ ہے۔ جبکہ خود موجودہ پی ٹی ائی کارکنوں میں اس وقت عہدوں کے لیے رسا کشی عروج پر ہے اجتماعی تنظیم سازی اور کوشش نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحریک انصاف جی بی میں چند ایک مخلص سیاسی کارکن بھی ہیں تاہم چونکہ اکثریت گھمنڈی اور خوش فہموں کی ہے سو ان لوگوں کی آواز کو کوئی سنتا بھی نہیں۔ اور یہ لوگ کچھ سمجھنے سے قاصر نظر آرہے ہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ اپ نے نوٹس کیا ہوگا کہ میڈیا پر پی ٹی ائی کے کارکن اپنی اپنی زاتی کوششوں میں نظر آتے ہیں۔ بیانات سے لے کر اجتماعات تک فرداً فرداً کیا جاتا ہے۔ جبکہ اجتماعی سطح پر آپس میں لڑائی جھگڑے ضرور کرتے ہیں۔ یہ سب زاتی مفاد کی جنگ کا نتیجہ ہے۔
ایسے ماحول میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ جی بی میں آئیندہ الیکشن میں کون کامیاب ہوتا ہے کون نہیں۔
گلگت بلتستان کے آئینی اور سیاسی مسائل کے حوالے سے بھی یہ لوگ اج تک کوئی روڑ میپ نہیں دے چکے ہیں۔ حالانکہ مرکز میں پی ٹی ائی کی حکومت کے ہونے کے بعد ان کو اس حوالے سے ایک مضبوط بلیو پرنٹ دینا چاہئے تھا (اگرچہ غیر حقیقی یا خالص سیاسی ہی سہی) تاکہ ڈسکشن اس بیانیے کے اردگرد چلتا رہے۔
لیکن مسلۂ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کرنے کی کوشش کی ہے منظم قیادت کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان میں کس طرح کام کرتی ہے اگر منظم ہوکر میدان میں آتی ہے تو یوں سمجھئے کہ تیار حلوہ کھانے کے قابل ہوگئی بصورت دیگر اگر امجد حسین کی پارٹی میدان مارتی ہے تو پھر یہ امجد حسین اور ان کی ٹیم کی تاریخی جیت ہوگئی بہرحال اس کا جواب وقت ہی دیگا۔
|
|
|