کالمز

جنگ اور امن …. دوسری قسط

اشفاق احمد ایڈووکیٹ

کہا جاتا ہے کہ جنگ وجدل پاگل پن کی تمام شکلوں کا دروازے کھول دیتی ھے،انسانی حساسیت کو ختم کرتی ھے اور ھزاروں سالوں کی ارتقاء کے مراحل سے گزر کر انسانی تہذیب و تمدن کے دعویدار انسان کو بربریت اور وحشت کے اندھیرے میں دکھیل دینےکا باعثِ بنتی ھے اور جنگل کے دور کی یاد تازہ کرتی ھے۔جب انسانی سماج قانون ومساوات کے بجائے طاقت اور جنگل کے قانون کے تحت چلتا تھا۔جنگ عظیم دوئم نے انسان کو دوبارہ جنگل کے دور جیسے حالات سے دوچار کیا تھا، جنگ نے ساری دنیا میں معاشی کسادبازاری پیدا کیا، جس کے نتیجے میں بےروزگاری،لاقانونیت، بیماری بھوک و افلاس اور مایوسی نے معاشرے میں مختلف سماجی بیماریوں کے ساتھ انقلابات کے دروازے بھی کھول دیئے اور پچھلی صدی تسلسل کے ساتھ انقلابات کی زد میں رہا، جن میں انقلاب روس، انقلاب چین، کیوبا اور انقلاب ایران نمایاں ہیں، جبکہ معاشرتی افراتفریجسم فروشی چوری اور جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ معاشرتی بیگانگی نے انسان کو سماج سے دور کیا اور دنیا میں ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش اور افراتفری نے سماجی عدم رواداری اور نفرت کو پروان چڑھانے میں اھم کردار ادا کیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ھے کہ جنگوں میں نہ صرف قیمتی انسانی زندگیاں تباہ ھوجاتی ھیں بلکہ ھزاروں سالہ انسانی تہذیب و تمدن کا حاصل ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے اھم تاریخی مقامات بھی برباد ھوجاتے ہیں،مثلاً 9/11کے بعد دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی شروعات ھوئی اور امریکہ نے اپنی فوجی اتحادی تنظیم نیٹو افواج کے ساتھ ملکر افغانستان کے طالبان حکومت پر حملہ کیا جوابا طالبان حکومت نے افغانستان میں موجود بدھا کے قدیم ترین مجسمے کو تباہ کیا،  جنگ میں نہ صرف بےگناہ انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ھے بلکہ اسکول کالج ، فیکٹریاں،کارخانے ایئر پورٹس، ڈیمز ،سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر بھی تباہ کئے جاتے ہیں ،بعض اوقات جنگ میں شہر کے شہر تباہ کئے جاتے ہیں مثلاً دوسری عالمی جنگ عظیم میں جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر کے نازی افواج نے روس کے مشہور شہر ماسکو اور برطانیہ کے شہر لندن کو مکمل طور پر تباہ کیا.

اگرچہ جنگوں میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ھوتا، لیکن دنیا کے حکمران طبقے نے ابھی تک جنگ کی تباہی سے سبق نہیں سیکھا ہے اور سالانہ کھربوں ڈالر جنگی سازو سامان اور خطرناک ترین ھتیار بنانے میں خرچ کرتے ہیں۔اج کے جدید ایٹمی دور میں جنگ کا تصور بھی نہایت خوفناک ھے چونکہ جب دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے دو شہرروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیا تو چند منٹوں کے اندر لاکھوں بےگناہ انسان ھلاک ہوئے،  ہیروشیما اور ناگاساکی نے موت کا منظر پیش کیا تھا اور اس دلخراش واقعے کے 73سال گزرنے کے باوجود اج بھی جاپان کے ان علاقوں میں جنم لینے والے بعض بچے  ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پھیل جانے والی تابکاری اثرات کی وجہ سے معذور پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی جنگ وجدل کو ناسمجھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بہت ھی عظیم الشان اور خوبصورت شے کے طور پر پیش کرتی ھے، اور بدقسمتی سے آج بھی دنیا بھر میں نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور افزائش پر کروڑوں ڈالر سالانہ خرچ کیا جاتا ھے بلکہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملکوں کی تعداد میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ ھوا ھے۔

سرد جنگ 1945-1991 کے دوران  دو سپر طاقتوں امریکہ اور سابق USSR نے اپنے مفادات کی بنیاد پر دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں تقسیم کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں پراکسی وارز شروع کیا اور دنیا کے بعض ملکوں  جسے جرمنی کو ایسڑین اور ویسٹرن جرمنی میں تقسیم کر کے دیوار برلن تعمیر کیا جبکہ کوریا کے دو حصے کیے گئے جن میں آج تک تنازع چل رہا ہے اسی دوران NATO اور WTO وارسا ٹریٹی کے نام سے فوجی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا اور انڑکانٹننٹل (بین البراعظمی) بلاسٹک میزائل اور سٹار وارز کی دوڈ شروع کرکے  دنیا بھر میں خوف اور وحشت کو پروان چڑھایا، اور دیگر ممالک کو بھی جواز مہیا گیا گیا کہ وہ بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کریں۔ یوں امریکہ، روس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے دوڈ میں برطانیہ،فرانس،چین،انڈیا ،پاکستان اور اسرائیل،اور نارتھ کوریا نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی، اس طرح ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ نے انسانیت کے مستقبل کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا ھے، جو کہ دنیا کے امن کے لیے خطرناک ھے چونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 1945کے مقابلے میں آج کے ایٹمی ہتھیار پانچ ہزار گناہ زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔لہذا اگر کسی غلط فہمی، حادثہ یا پھر کسی غیر دانشمندانہ فیصلہ یا غلطی کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ھوا تو ھماری یہ  دنیا مکمل طور پر تباہ ہوسکتی ھے، ماضی میں دنیا اس طرح کی خطرناک ترین صورت حال سے بال بال بچ گئ ھے مثلاً اکتوبر 1962 کو کیوبن میزائل کرائسس کے دوران روس اور امریکہ میں ایٹمی جنگ کی خطرناک ترین صورت حال پیدا ھوئی تھی لیکن امریکہ کے صدر کینیڈی اور یو ایس ایس آر  کے سربراہ خروشف کے درمیان مذاکرات نے رنگ لایا، اور ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا لیکن اسطرح کی صورتحال مسقبل میں جنم نہ لے اسکی کوئی گرانٹی موجود نہیں ھے، کیونکہ آج قومی ریاستوں کے مفادات بھی بدل گئے ہیں اس کے ساتھ غیر ریاستی عناصر جسے مختلف دھشت گرد گروہ بھی ان خطرناک ھتیاروں کے حصول کے لیے کوشش کرسکتے ہیں کیونکہ  آج دنیا بھر میں ھتیاروں کا خریدوفروخت ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔

آج دنیا میں ہر سال ایک سو بلین ڈالرز ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیا جاتا ھے جبکہ دوسری طرف دنیا بھر میں کروڑوں انسان بھوک ،افلاس اور بیماریوں میں مبتلا ہیں اور  غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ بچے بھوک کی وجہ سے مر رھے ھیں، اور روزانہ سترہ ہزار بچے خوراک کی قلت سے مر رھے ہیں جبکہ گیارہ ملین بچے خوراک کی قلت کی وجہ سے پیدائش سے قبل ہی مر جاتے ہیں۔جبکہ دنیا میں ہر سال ایک سو بلین ڈالرز ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیا جاتا ھے، جوکہ ایک سوالیہ نشان ہے؟حیرت کی بات یہ ہے کہ جدید ھتیاروں کے حصول کے اس خطرناک کھیل میں دنیا کے غریب ترین ممالک بھی کسی سے پیچھے نہیں، جو ہر سال اپنی قومی آمدنی کا ایک کثیر حصہ جنگی سازو سامان کی خریداری میں استعمال کرتے ہیں، جبکہ ایسے ملکوں میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.مثال کے طور پر آج تیسری دنیا کے 149میں سے 105ممالک غذائی اجناس تک بیرونی طاقتوں ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ان ممالک میں اندرونی خانہ جنگی اور انارکی کی وجہ سے سماجی نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔مثلاً سوڈان میں خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک بیس لاکھ لوگ ھلاک ہوچکے ہیں،جبکہ چالیس لاکھ لوگ بےگھر ھو گئے ہیں۔اقوام متحدہ کی رفیوجی ایجنسی کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں جاری اندرونی مسلح جھگڑوں، سیاسی تشدد اور خانہ جنگی کی وجہ سے مہاجرین اور انٹرنل ڈسپلسڑ لوگوں کی تعداد 2005میں 24ملین تھی جو کہ 2010میں بڑھ کر 37ملیین تک پہنچ گئی تھی جبکہاقوام متحدہ کا ادارہ  ہائی کمیشن برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق سال دو ہزار ستر میں دنیا میں مہاجرین کی تعداد بڑھ کر کل تعداد  65.6ملین تک پہنچ گئی ھے، جو دنیا بھر میں مختلف تنازعات جھگڑے،قتل عام ،تشدر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ھوئے ھیں، جوکہ باعث تشویش ھے.

اس لیے وقت کا تقاضا ھے کہ دنیا کے ممالک کے درمیان  تمام تنازعات کو بات چیت ، مذاکرات اور ڈپلومیسی کے زریعے پرامن بقاء باھمی کے تحت حل کیا جائے نہ کہ جنگ وجدل کے زریعے،  چونکہ تاریخ شاہد ھے کہ جنگ کے ذریعے تنازعوں کا فیصلہ غیر تسلی بخش اور عارضی ھوتا ھے، اور جنگ کا خطرہ بدستور برقرار رہتا ہے. لہذا آیئے ہم سب ملکر امن کے قیام کے لیے جدوجھد کریں اور اس سیارہ زمین کو جو کہ ھم سب کا گھر ہے، اسے جنگ کی تباہیوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button