ہم وہ قوم ہیں
تحریر: ایس ایم شاہ
ہم وہ قوم ہیں کہ جن کی دنیا کے نقشے پر 56 ممالک میں حکومت قائم ہے۔ یہ ممالک اگر متحد ہوجائیں تو عالمی حالات اور طاقت کا توازن یکسر بدل سکتے ہیں اور نام نہاد سوپر طاقت ممالک ہمارا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے ہر طرح کی معدنیات سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جس کی چودہ سو سالہ تہذیب و تمدن کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جس کے نبی رحمت عالم ہیں اور کائنات کے تمام انبیاء و اولیاء سے اشرف و برتر ہیں۔ جس نے اپنی 23 سالہ مختصر اور پرمشقت تبلیغی دور میں اسلام کو پورے جزیرة العرب میں پھیلا دیے اور دنیا کے دیگر حصوں کو بھی پیام اسلام روشناس کرائے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ تقریبا نصف دنیا دائرہ اسلام میں داخل ہوچکی تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے خلاف بہت خطرناک سازش کی گئی۔ اس وقت ہم وہ قوم ہیں کہ جس کی پوری انرجی اہل حدیث، دیوبندی، شیعہ اور بریلوی ایک دوسرے کو سرکوب کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو صدیوں تک کلام خدا کے حادث ہونے یا قدیم ہونے پر ایک دوسرے کو سرکوب کرنے پر تو ضرور گزار دیں لیکن اس پیام الہی کو کس طرح دنیا تک پہنچانا ہے اس حوالے سے سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جن کو انسان کے فاعل مختار ہونے یا مجبور محض ہونے جیسی بحثوں میں الجھائے رکھ کر بہت سارے ظالم و جابر حکمرانوں نے اپنی من مانیاں چلائیں لیکن جو آزادی اور اختیار اللہ تعالی نے ہمیں عطا کیا ہے اسے استعمال کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرنے کی ہم نے قابل ذکر کوشش نہیں کی۔ ہم اکثر پستے رہے اور اب بھی پس رہے ہیں۔ اس وقت جتنی کوشش خود مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں ہورہی ہے اتنی غیروں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی نہیں ہورہی۔ یعنی ہمارے دشمنوں نے ہماری زیادہ تر طاقت کو آپسی ٹکراؤ میں ضائع کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج 1400 سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی غیر مسلموں کی تعداد 6 ارب ہے اور ہم مسلمان بمشکل1.5 ارب ہیں۔
ہم وہ قوم ہیں کہ جو عرصہ دراز سے نماز کے دوران میں ہاتھ سینے پر رکھنے، ناف پر رکھنے یا ہاتھ کھول کر رکھنے پر ایک دوسرے کے بارے میں ہر وہ بات کر جاتے ہیں جو بیان کے لائق نہیں لیکن ہم نے کبھی سرے سے ہی اسلام کو نہ ماننے والوں کی طرف توجہ مبذول نہیں کی۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جو ایک دوسرے کی اہانت میں کسی قید و شرط کے قائل نہیں لیکن عرصہ 71 سالوں سے ناجائز اسرائیل ہمارے قبلہ اول پر قابض ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جس اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے مسلمانان عالم اگر ایک ایک بالٹی پانی بھی گرا دیتے تب بھی کافی تھا۔ ناصرف یہ بلکہ بعض اسلامی ممالک علی الاعلان یا پشت پردہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات بنانے اور بنوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جس نے جہاد جیسے مقدس لفظ کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا کہ جس کے نتیجے میں صرف پاکستان کے اندر اپنے ہی ستر ہزار سے زائد پاک فوج اور بے گناہ مسلمانوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیے لیکن یہی جہاد کبھی تمام مسلمانوں کے مشترکہ دشمن امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کرنے کا سوچا تک نہیں۔
ہم وہ قوم ہیں کہ جس کے بارے میں شاعر مشرق نے کہا تھا:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
علاوہ ازیں آپ نے یہ بھی بتایا تھا کہ "مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا” صرف یہ نہیں بلکہ ہمارے شاعر مشرق نے ہمیں اپنے وطن کی سرحدوں کو اتنا وسیع کرکے دکھا گئے تھے کہ "جہاں جہاں ایک مسلمان بھی آباد ہیں وہاں تک ہماری سرحدیں جاتی ہیں” ہم وہ قوم ہیں کہ جس نے اپنے مفکر قوم کے نظریہ وطن کو بھی فراموش کرکے ہر ایک اپنی اپنی دو انچ کی مسجدوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور دن بہ دن تنگ نظری کی طرف گامزن ہیں اور قوة برداشت میں مرور زمان کے ساتھ ساتھ کمی آتی چلی جارہی ہے۔
اسی بدقسمتی کا یہ بھی ایک نمونہ ہے کہ قدرتی معدنیات کو مسلمانوں کی سربلندی پر خرچ کرنے کے بجائے مغرب سے اسلحے خریدنے اور مسلمانوں پر چلانے کے لیے ہی خرچ کر رہے ہیں۔ آج کشمیر، فلسطین، یمن، بحرین، روہنگیا اور افغانستان میں مسلمان کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آئے روز کی قتل و غارت گری نے ان کی زندگی اجیرن بناکے رکھ دی ہے۔ شام اور عراق میں داعش کا صفایا ہونے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع کسی حد تک فراہم ہوا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جس کے رسول کا فرمان ہے: "جو اس حالت میں صبح کرے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کی کوئی فکر نہ ہو تو وہ مسلمان ہی نہیں” لیکن اب ہم مقام عمل میں اس حدیث پاک کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جسے اللہ رب العزت نے پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے پیدا کی ہے لیکن اب ہم آپس کے مسائل میں اس قدر الجھ کر رہ گئے ہیں کہ دوسروں کی طرف مڑ کر دیکھنے کا بھی ہمیں وقت نہیں ملتا۔ دشمن نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے کو ہم پر لاگو کر دیا ہے اور ہم خاموشی سے اسے عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جسے اللہ رب العزت نے امت واحدہ کے طور پر ممتاز مقام عطا کرکے دنیا میں بھیجا ہے لیکن ہماری کوتاہیوں کے باعث اب امت واحدہ کا لفظ فقط قرآن و حدیث کے متن تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور مقام عمل میں ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جو حق پر ہونے کے باوجود بھی متفرق ہیں اور مغربی ممالک وہ ہیں جو باطل پر ہونے کے باوجود بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اب جس امریکہ کا 1600 عیسوی تک نام و نشان نہیں تھا وہ پوری دنیا پر تسلط پیدا کرنے کے لیے مختلف ممالک میں اپنے مفادات کی جنگ مسلط کر رکھا ہے اور ہم وہ قوم ہیں کہ جو 1400 سال پہلے سے ایک خاص تہذیب و تمدن اور علم و فن سے آراستہ پیراستہ ہونے کے باوجود اس وقت مغرب کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔ ان تمام مشکلات کا حل، ہماری فلاح و بہبود، سربلندی اور ترقی کا راز؛ قرآن مجید کو سرنامہ زندگی قرار دینے، اتحاد بین المسلین کے فروغ، مسالک کے ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم و آگاہی حاصل کرنے، قوة تفکر اور قوت برداشت کو وسعت دینے اور آپسی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں پنہاں ہے۔