ایس سی او ایک جہد مسلسل۔۔
گلگت بلتستان صدیوں تک ماندہ دنیا سے الگ تھلگ رہا۔ دنیا کی سیاست میں کہیں اتار چڑھاؤ اتے گئے، لیکن اس کا براہ راست اثر گلگت بلتستان پر نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا مخصوص جغرافیہ اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے ہیں ،جس کی وجہ سے باقی دنیا کے اثر کو یہاں کے باسیوں نے کم ہی قبول کئے۔قدیم سلک روڑ جو چین کو وسطی ایشیائی ممالک سے ملاتا ہے، گلگت بلتستان سے گزرتا تھا۔
موجودہ شاہراہ قراقرم جن جگہوں سے گزر کر گلگت بلتستان کو ملک کے باقی حصوں سے ملاتی ہے،دُور قدیم میں اس سمت کسی روڑ کا وجود نہیں تھا۔ صرف دریائے سندھ پہاڈوں کا سینہ چیر کر گزرتا تھا ۔یہاں سے کسی بشر، یا تجارتی قافلے کا گزرتا ناممکن تھا ۔ قدیم گزرگاہیں جو کشمیر کو گلگت بلتستان سے ملاتی تھیں ،ان راستوں میں چلم پاس، اور برزل پاس قابل ذکر تھے۔اسی طرح چین سے ملانے والے راستوں میں ایک خنجراب پاس اور دوسرا راستہ شمشال پاس تھا۔گوجال کے علاقے چپورسن کے راستے روس تک رسائی ممکن تھا۔اسی طرح چپورسن کے عقب میں بالترتیب درکوت پاس ،تھوئی پاس کے علاوہ شندور پاس متبادل راستوں کے طور پر دستیاب ہوتے تھے۔
گلگت بلتستان ١٨٤٤ میں سکھوں کے نرغے میں چلا گیا۔١٧٤٦ میں ڈوگرہ برسراقتدار ائے۔اور گلگت بلتستان کو بھی ریاست جموں کشمیر میں شامل کر کے ایک کامل ریاست کی بنیاد ڈالی گئی۔جو ائندہ انے والے کئی عشروں قائم و دائم رہی۔
اُن دنوں برصغیر پر انگريز قابض تھے۔ انیسویں صدی عسوی کے اوائل تک کئی انگريز سیاحوں نے گلگت بلتستان کا دورہ کر چکے تھے۔١٨٦٠ کے بعد جب روسی طاقتیں پامیر میں جنگی مشقیں کرتے ہوئیں پائی گئیں ،تو انگريز سرکار نے اپنی توجہ گلگت بلتستان پر مرکوز کیں رکھا،ممکنہ خطرے کے پیش نظر کشمیر سے گلگت تک خچر روڑ کے ساتھ ساتھ دریاؤں پر مضبوط پل تعمیر کئے گئے ۔تاریخ میں پہلی بار انگریزوں نے اپنے مفادات کے خاطر گلگت تک ٹیلی گرام لائن بچائی گئی ،یہ پہلا موقع تھا کہ گلگت بلتستان میں وقوع پزیر ہونے والے حالات کو دنیا تک پہنچانے کا ایک زریعہ مل گیا ۔کئی عشروں تک گلگت سے سری نگر تک پیغام رسانی کے لئے یہی ٹیلی گرام استعمال ہوتا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ پیغام رسانی کے لئے ڈاک سسٹم بھی موجود تھا ۔لیکن ڈاک سسٹم اس وقت بہت سست روی کا شکار تھا ،سال کے چھ مہنے خط و کتابت کا سلسہ جاری رہتا تھا ،باقی چھ مہنے یہ سلسہ منقطہ ہوتا تھا ۔کیونکہ رابطہ سڑکیں برفباری کی وجہ سے بند ہوتی تھیں۔
یکم نومبر کو گلگت میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی ۔اس بغاوت کے بعد سری نگر سے ملانے والی تمام رابطہ سڑکوں کو بند کں گئیں ۔اس کے ساتھ ہی ٹیلی گرام سروس بھی معطل رہی۔کئی دہائیوں تک گلگت بلتستان باقی دنیا سے کٹ آف ہو کر رہ گیا۔
سویت یونین کی افغانستان میں قدم جمانے کے ساتھ ہی ایک بار پھر گلگت بلتستان کی اہمیت حکومت پاکستان کے لئے مزید بڑھ گئی ۔کیونکہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے ۔اس خطرے کے پیش نظر حکومت پاکستان نے علاقوں سے براہ راست رابطے بڑھانے کے لئے ستر کی دہائی میں اسپیشل کمیونیکیشن ارگنائزیشن کو زمہ داری سونپی گئی،اور ان علاقوں میں ٹیلی کمیونیکیشن کی بنیاد ڈالی گئی۔ انتہائی نامساعد حالات میں ،علاقے میں مواصلاتی نظام کا ایک جال بچھایا گیا۔گلگت بلتستان کے دور افتاده علاقے، جہاں تک رسائی اور ان علاقوں کو ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑنا اسان کام نہیں تھا ۔یہ جان جوکھوں والا کام تھا،کیونکہ یہاں موسمی حالات اکثر اوقات غیر موافق رہتے ہیں۔سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کہیں طرح کے خطرات کا سامنا ہوتا تھا ،پھتروں کا گرنا ،برفانی توڈوں کا گرنا ،سیراب کا انا وغیرہ ۔یہی نہیں خون کو جمانے والی سردی، اور رابطہ سڑکوں کا نہ ہونا بھی ایک چیلنج تھا۔ان سارے چیلنجز کو پاک فوج نے خنده پیشانی سے سامنا کیا ،اور علاقے میں روابطہ بڑھانے اور دوریوں کو سمٹنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔یاسین سے خنجراب اور کھرمنگ سے داریل تک لوگوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا،یہ سب انتہائی نا مساعد حالات میں کئے جا رہے تھے۔
وقت اپنی رفتار سے گردش کرتا رہا ،اس بیچ کئی اوتار چڑھاؤ اتے گئے۔لیکن ایس سی او کبھی مشکل حالات سے خوفزدہ نہیں ہوئی ،نہ رابطوں میں خلل پیدا ہونے دی ۔ہمالیہ سے بلند حوصلوں کے ساتھ آج بھی اسی رفتار سے منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
آج ہم جن پرائیوٹ کمپنیوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ،یہ بہت دیر سے گلگت بلتستان ائے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے تین دہائیوں سے ہماری قربتیں کن اداروں نے بڑھائے تھے۔
ہماری یادداشتیں کمزور ہو چکی ہیں ،یا پھر ہم احسان فراموش ہو چکے ہیں ،آج استینیں چڑھا کر زبان درازی کر رہیں ہیں۔سروس میں بہتری لانا ادارے کا کام ہے،شاید جلد ہی گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں تھری جی اور فور جی سروس بھی مہیا ہوگی۔لیکن اپنی سوچ کو صحیح سمت دینا ہماری زمہ داری ہے۔باقی اداروں کا کام انکو کرنے دے ،ہم سے زیادہ شاید وہ ہمارے بارے میں پریشان ہیں اور ضرور ہماری بہتری کا سوچ رہے ہونگے۔