کالمز

دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش اُس دیوانے  کی جگہ میں ہوتا

 پچھلے دنوں  فیس بک میں ایک تصویر دیکھنے کو ملی جہاں آوارہ  کتوں کو ذہر کھلا کرمارا گیا تھا ۔ اُن میں ایک تصویرمیں ایک جگہ زہر کھانے کے بعد اللہ تعالی کی وہ  مخلوق  جو وفا شعاری بے  مثال ہے ، منہ سے خون بہہ کے مری پڑی تھی اور تصویر گویا تھی  ” کیا اللہ کی اس دھرتی میں مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ؟” یہ دیکھ کر مجھے  اج سے 18سال قبل کا ایک واقعہ یاد آیا ہے ۔ ٹھٹھرتی سردی کا موسم ,میں گلگت کے ایک شاہراہ کے ساتھ والی  راہگیروں کی پٹڑی سے گزر رہا تھا کہ تیز بریک لگانے سے کسی گاڑٰی کے ٹائروں کے زمین کے ساتھ گھس کرسماع خراش چرمراہٹ  کی خوف ناک آواز سنائی دی ۔  راہ چلتے لوگ رُک رُک کر اور جھانک جھانک کر دیکھنے لگے ۔ میں بھی رُ ک گیا جھا نک کے دیکھا تو ایک تیز رفتار گاڑی جس کے اندر ایک اشرف مخلوق ، جسے انسان کہا جاتا ہے ، بیٹھی ہوئی تھی اور اُس کی گاڑی   کتے کے ایک خوبصورت پلے  کو  بُری طرح سے ٹکرما رکے نکل گئی تھی  ۔ کتے کا ننھا اور خوبصورت بچہ  پیٹھ کے بل گرا ہوا تھا اور کانپ رہا تھا ۔  اُس کا نازک بدن گھائل تھا ۔ اتنے میں ایک فربہ اندام  آدمی آئے  اور بولے ” ہم پریشان تھے کہ گاڑی نے کسی کو کچل ڈالا یہ  تو آوارہ کُتا تھا دفع کرو اس کو  ”  کہکر غصے سے اُس نازک بدن کے پیٹ پر ایک زوردار لات  ماردی ۔  زخموں سے چور چور اللہ کی یہ  بے  زبان  مخلوق انسانوں کی دھرتی میں  راستے کے بیچوں بیچ چیختی اور کانپتی رہی اور ساتھ سے گزرنے والے انسان اُ س بے چارے جانور کے نازک جسم سے آٹھنے والے درد کے شدید ٹیسوں  کی وجہ سے  منہ تک  آنے والی چیخ و پکار سے   خوب محظوظ ہوتے رہے ۔ میں بھی اُن تماشابینوں میں شامل تھا  اور میں بھی زخموں سے چور چور سسکتے اور بلکتے نازک جسم کا برابر تماشا دیکھے جا رہا تھا ۔ اتنے میں ایک دو اور آوارہ کُتوں کا وہاں سے گزر ہوا۔  یہ آوارہ کتے اُس ننھے سے پلا  کی برف بڑھے اور اُس کی مدد کی کوشش کرتے رہے ۔  اب کی بار میں شاید  دل کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا  تو مجھے مدد کے لئے آئے ہوئے کتوں کی آنکھوں میں شدید صدمے کے آثار نظر آ رہے تھے۔ وہ کُتے گھائل کتے پاس اُسے سونگھتے اور اور اُٹھانے کی ناکام  کوشش کرتے ۔ حیران کن بات تھی یہ دو اجنبی کتے اُس زخمی پلا  کے سرہانے  دیر تک بیٹھے رہے ۔  شاہراہ تھا ، ٹریفک تھی، لوگوں کا ہجوم تھا ۔ آج اتفاق سے کئی ایک بڑے لوگ اس راستےسے  گزرے جن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں تھیں  گاڑیوں کی ایک قطار ایسی بھی گزری کہ جن میں ایک گاڑی  سر سے لیکر پاوں تک سیاہ تھی پانچ مزید گاڑیوں میں بندوق بردار لوگ ایں ویں ساتھ حفاظت کے لئے بیٹھے تھے، نہیں معلوم اندر کونسی مخلوق براجماں تھی    ۔ لیکن اُن گاڑیوں میں بیٹھے آفیسروں میں سے ایک آدمی بڑا خدا ترس تھے ، اُس نے اپنی گاڑی کا کالا شیشہ نیچے کر کے ایک نظر کتے پر ڈالی اور پھر اپنا شیشہ بند کیا بس یہی اُس کی انسانیت کا معراج تھا  ۔ 15  سے 20 منٹ تک لوگوں نے  نازک اور نھنے پلے  کو راستے کے بیچوں بیچ موت و حیات  کی کشمکش میں  ایڑٰیاں رگڑتے  دیکھتے  رہے اور باقیوں نے  دو آوارہ  کتوں کو اُس نازک جان کی پہرہ داری کی حالت میں از راہ تفنن دیکھنے کی کوشش میں وقت بتایا لیکن کوئی بھی اُس ننھی سی جان کی مدد کے لئے آگے نہیں گیا  ۔ اتنے میں ایک ملنگ ( عام لفظوں میں پاگل، جو اُس زمانے میں گلگت پبلک سکول چوک کے ساتھ چنار کے ایک بڑے اور پرانے درخت کے نیچے گوشہ نشین تھے ۔ اب وہ چنار نہیں ہے اور نہ وہ ملنگ ہے   )  جو دسمبر کی جان لیوا سردی میں آسمان تلے  رات گزارنے  کے بعد ایک عجیب حلیے میں  کشاں کشاں یہاں سے گزر رہے تھے  ۔  اُس کا حلیہ ڈرونا  تھا،  گندہ میلا کچیلا عام طور پر اُسے دیکھتے ہی  شرفا اپنا راستہ بدلتے تھے ۔  ساتھ سے گزرے تو ایک ہیبت طاری ہوا کرتی ۔ شاید قدرت نے اُسے اپنی ننھی مخلوق کی مدد کے لئے بھیجا تھا ، راستے کے بیچ سسکتی اور بلکتی ننھی سی جان کی جانب دیوانہ وار لپکے ، ذخموں سے چور کتے کے بچے کو گود میں اُٹھایا اور راستے کے کنارے ایک محفوظ جگہے میں لے جا کر سلا تھا اور اپنا بوسیدہ کوٹ اُتار کر اُس کے اوپر رکھدیا اور ساتھ بیٹھے رہے ۔ کچھ وقت بعد پلا نے حرکت کی اور اُٹھ  کر الگ انداز سے ” بخ ” کیا ۔ عجیب سماں تھا ، ملنگ آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں اور پھر کتے کے بچے کی طرف دیکھ کر ایک تبسم کیا اور اپنی راہ لی ۔ یہ ایک واقعہ تھا  جو میرے دل میں ایک ناقابل اندمال گھاو چھوڑ کر چلا گیا ۔ میں آج بھی جب اُسی چوک سے پیدل گزرتا ہوں تو وہ واقعہ آج کی طرح آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے تو میں سوچنے لگتا ہوں کاش اُس دیوانے کی جگہ میں ہوتا ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button