عورت اور خود شناسی
تحریر : نیک پروین
کچھ دنوں سے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی گلگت بلتستان کی قابل فخر بیٹی انیتا کریم کے استقبال کےلئے با وقار تقریبات کے چرچے پورے علاقے میں عوام کی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں، وزیر اعلیٰ اور گورنر گلگت بلتستان کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں اور مناسب حوصلہ افزائی کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جس میں انیتا کریم کو نقد انعامات اور شیلڈ بھی دئیے گئے اور یہ کے وہ نہ ہو انیتا کریم جیسی بہادر اور با صلاحیت بیٹی نے مکس مارشل آرٹس میں عالمی ٹائٹل جیت کر نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے ملک کا نام روشن کیا ہے، انکے شاندار استقبال نے ہر ماں باپ کے دل میں خواہش کے بیج بوئے ہونگے کہ ان کے آنگن میں آنیتا کریم جیسی پھول کھلے جس کی خوشبو سے ہر دماغ معطر ہو جائے ، یہی نہیں پھکر نگر کی بات کرتے ہیں جہاں وہ با ہمت خواتین نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر سخت سرد موسم میں برف کے ٹیلوں سے گزرتے ہوئے پولیو مہم کو کامیاب بنایا جس کے اعتراف میں یونیسیف پاکستان کی جانب سے ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسلام آباد میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ قوم کی ان با ہمت بیٹیوں کو مقامی سطح پر بھی محکمہ صحت انتظامیہ کی جانب سے سرٹیفکیٹ سے نوازا جا چکا ہے ،اسی طرح خصوصی افراد میں سے بھی تین بچیوں نے میڈلز حاصل کئے ہیں ان کا بھی با وقار انداز میں استقبال ہو چکا ہے ۔۔
ماہرین کے مطابق انسان اصل میں دو صورتوں میں ہوتا ہے ایک باہر کی طرف سے اور ایک اندر کی طرف سے ، اللہ نے ہر انسان کو ایک خاص مقصد کےلئے پیدا کیا ہے اور ایک خاص ٹیلنٹ بھی دیا ہوتا ہے ہر انسان کی زندگی کا راز اس کے دل میں پوشیدہ ہوتا ہے ، خود کو پہنچان لیے تو گویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ، علم کے مطابق انسان وہ واحد مخلوق ہے جو خود سے سوال کرتا ہے کہ میں کون ہوں اور کدھر جا رہا ہوں ، دنیا کے وہ تمام نام جنہوں نے کچھ بن کر دنیا کو کر دکھائے ، خود کو ثابت کیا وہ تمام نام جن سے تاریخ بنی ہے اور وہ تمام نام جنہوں نے تاریخ بنائی ہے وہ جنکے نام عزت و احترام سے لئے جاتے ہیں ان سب کو اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ میں کون ہوں ؟ اقبال ؒ فرماتے ہیں”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی“
اور ایسی مثالیں ہمارے لئے مشعل راہ بھی ہیں جو علم کے میدان میں عورت و مرد کی تفریق ختم کرکے عورتوں کےلئے بھی دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیا ہے ، رسول اللہ نے فرمایا ” علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے “ کی تکمیل ہمیں عہد رسالت میں ھوں نظر آتی ہے کہ حضرت خدیجہ کا شمار اس عہد کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ، پاکستان سمیت گلگت بلتستان میں ایسے کئی والدین موجود ہیں جو اپنی بیٹیوں کی نہ صرف تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حق میں ہیں اسلئے کہ تعلیم عورت کو خود اعتمادی عطا کرتی ہے ، اسے خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے ، اس میں خود شناسی کی لہر پیدا کرتی ہے جس سے وہ معاشرے میں اپنی بقاءکی جنگ لڑتی ہے اور اپنے وجود کو بر قرار رکھتی ہے ، تعلیم عورت کو حقوق و فرائض کی پہچان سکھاتی ہے اور انہیں احسن طریقے سے پورا کرنا سکھاتی ہے ، معاشرہ گواہ ہے کہ آج والدین اپنی بچیوں کو بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ حصول تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں اور یہی بچیاں کل کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے آپ کو منوا کر ملک اور قوم کا سر فخر سے بلند کرتی نظر آتی ہیں،ہمارے ےہاں خواتین اپنی ناکامی اور ناقص سوچ کا ذمہ دار صرف مرد کو سمجھتی ہیں ان کےلئے میں اتنا ہی کہوں گی کہ گلگت بلتستان کی کم عمر انیتا کریم کے استقبال کےلئے بھی مرد ہی آئے اور ڈھول کی تھاپ پر ڈانس بھی کرتے ہوئے قابل فخر بیٹی انےتا کرےم کو جلوس کی شکل میں گھر لے گئے ، علامہ اقبال کا شعر ہے ۔۔
غافل نہ ہوں خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
عورت پر اللہ رب العزت نے بھاری ذمہ داری کےساتھ پیدا کیا ہے جس مرد کے خلاف احتجاج پر اتر آتی ہے اسی مرد کو ہی اپنے ہاتھوں کی پرورش کے ذریعے پروان چڑھاتی ہے ، اس کی تربیت اپنے ہی ہتھیلی پر رکھ کر اپنی تمام تر توانائیاں استعمال میں لاتے ہوئے کرتی ہے ، یہاں تک کی اس کی تخلیق عورت کے ذریعے سے ہی کی ہے اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ خود کو اور نئی نسل کو اس قابل بنائیں کہ وہ آگے چل کر معاشرے کو سنبھال سکیں ، جب وہ خود کسی قابل نہ ہو تو نئی نسل کیسے ترقی کرےگی ،تاریخ گواہ ہے کہ بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے ، ہر کامیاب مرد کے پیچھے اس کی ماں کی بے شمار تربیت ہوتی ہے، عادل ماں کا بیٹا عموما! عادل ہی ہوتا ہے، بقول نےولین بونا پارٹ ” بہترےن قوموں بہترین مائیں ہی بنا سکتی ہیں “ ہمیں اپنی خوبیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو ہماری شناخت بنا سکتی ہیں ، جو خودی کا سبب ہے اس صفت کی شناخت کےجئے جس کے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں