سوشل میڈیا رحمت ہے یا زحمت؟
تحریر. اسرارالدین اسرار
جاہلوں کے لۓ وہ چیز بھی زحمت بن جاتی ہے جو عام طور پر عقل مند لوگ اپنے یا دیگر انسانو ں کے فاٸدے کے لۓ استعمال کرتےہیں۔ سوشل میڈیا کے بے پناہ فواٸد سے انکار ممکن نہیں ہے مگر جاہلوں کے ہاتھوں اس کے غلط استعال نے کٸی لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں۔ من گھڑت خبروں اور افواوں کی بھر مار کے علاوہ غیلظ زبان کا استعمال، شریف لوگوں کی زات پر کیچڑ اچھالنا اور کردار کشی سمیت کٸی ایسے شرمناک واقعات ہیں جن کی وجہ سے صاحب کردار اور اہل علم لوگ سوشل میڈیا سے اجتناب کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک مشاٸدے کے مطابق سوشل میڈیا کے باعث پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے کٸی لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ شریف لوگوں کی زاتی اور فیملی نوعیت کی تصاویرکو بلابوجہ پھیلانے ، غیر متوقع طور پر ملنے والی دھمکیاں، بلیک میلنگ اور منفی پروپگنڈے سمیت غلیظ اور اخلاقیات سے گری ہوٸی گفتگو نے کٸی لوگوں کو ذہنی کوفت اور شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ شریف لوگوں نے محض مزکورہ وجوہات اور غلاظت کی وجہ سے سوشل میڈیا کو خیر باد کہہ دیا ہے یا اپنی شناخت کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ان کو نہ پہچان سکیں۔
اکثر لوگ ہر علمی موضوع پر مکالمے کے دوران سیاق و سباق سمجھے بغیر کمر کس کر بیچ میں کود پڑتے ہیں ۔ جہلا کا ایک طبقہ گلم گلوچ اور بے ہودہ گفتگو پر اتر اتا ہے۔ دوسروں کو اخلاقیات کا درس دیتے وقت یہ طبقہ خود طوفان بدتمیزی برپا کردیتا اور اس دوران اپنی غلیظ زبان پر قابو پانے سے بھی یکسر قاصر رہتا ہے۔
دنیا کےکٸ حقاٸق سے نابلد ایسے لوگ اکثر سچ کو پاوں تلے روندتے ہوۓ ہر بات کو جزبات اور ا پنے زاتی نظریات کی عینک سے دیکھنے اور پر کھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں علمی گفتگو کی بجاۓ بات اکثر گالم گلوچ پر اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔ کسی مخصوص اور خالص علمی اور سنجیدہ موضوع پر بات کے دوران اس سے متعلق علم کے شدید فقدان کے باوجود اس پر راۓ زنی کو بعض کم علم لوگ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ بات اگر محض کم علمی کی ہو تو خیر کوٸی بڑامسلہ نہیں ہے مگر دوران گفتگو عدم برداشت اور غیر اخلاقی جملوں کے استعمال کی ازیت ناک صورتحال سے اکثر شریفوں کا پالا پڑ جاتا ہے۔ بعض لوگ ایسی باتوں کو خبر بنا دیتے ہیں جو خبر سے زیادہ شر پھیلانے کا زریعہ بن جاتی ہے۔ مگر مجال ہے کہ جہلا کو اس بات کا اندازہ ہو۔
کسی خاتون کی آٸی ڈی پر بلاوجہ فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا اور اس پر راۓ زنی کرنا بعض لوگوں کا معمول کا مشغلہ ہے۔ بعض خواتین کو بلاوجہ پیغامات بیھجنا اور جواب نہ ملنے کی صورت میں اخلاقیات سے گری ہوٸیں تصاویر اور غلط مواد شیر کرناایسےاوباش طبقے کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
اہل علم کی طرف سے کسی سنجیدہ یا مزاحیہ موضوع پر کی گٸ گفتگو کے درمیان بلا وجہ کود پڑنا اور اپنا مخصوص عینک لگا کر منفی نیجہ اخز کر نا بھی بعض لوگوں کی پسندیدہ سرگرمیو ں میں سے ایک ہے۔ یہ لوگ بلا وجہ ہر پوسٹ پر اپنی جاہلانہ راۓ دیۓ بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ کل تک جو غلاظت دنیا سے چھپی ہوٸی تھی یا کسی مخصوص جگہ تک محدود تھی آج اس کا تفنن سوشل میڈیا کی وجہ سے دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔
ایسے میں سوشل میڈیا کے استعمل کے ہزاروں فواٸد کٸی دفن ہوکر رہ گۓ ہیں۔ درست خبر کو دوسروں تک پہنچانا، علمی گفتگو کو فروغ دینا، مکالمہ کی روایت قاٸم کرنا، اچھی باتوں کا پرچار اور بری باتوں کو پس پشت ڈالنا، ایک دوسرے سے معلومات اور علم حاصل کرنا ، اخلاقیات اور احترام کے داٸرے میں رہتے ہوۓ ایک دوسرے کی راۓ پر مثبت تنقید یا اپنی راۓ کا بر ملااظہار کرنا، کھلے دل اور ٹھنڈے دماغ سے دوسرے کی راۓ سننا اور اس کا احترام کرنا، ایک دوسرے کی علمی اصلاح کرنا، درست اور اخلاق پر مبنی زبان کا استعمال کرنا، علمی اور ساٸنسی معلومات کو ایک دوسروں تک پہنچانا، امن، بھاٸی چارہ اور رواداری کو فروغ دینا ، شر انگیزی پر مٹی ڈالنا اور صلح جوٸی کو فروغ دینا، انسانوں کی مدد کے لۓ زراٸع تلاش کرنا ، اپنے حقوق و فراٸض سے متعلق آگاہی سمیت ہزاروں اچھے کام سوشل میڈیا کے زریعے سرانجام دٸے جاسکتے ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ جس کی بنیادی وجوہات شاید صرف اور صرف جہالت ، کم علمی ، گھر اور تعلمی اداروں میں کارآمد تربیت کا فقدان ہے۔
ساہبر کراٸم کے قوانین کو ان معاملات کی روک تھام کی غرض سے ترتیب دینے کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کے درست استعمال پر خصوصی مہم چلاٸی جاۓ تا کہ لوگ سوشل میڈیا کو اپنے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کے بجاۓ فاٸدے کے لۓ استعمال کر نے کے قابل ہو سکیں۔
موجودہ صورتحال دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کیونکہ جاہلوں نے سوشل میڈیا جیسی مثبت اور فاٸدہ مند چیز کو اپنی جہالت کی بیھنٹ چڑھا کر اپنے اور پورے معاشرے کے لے باعث زحمت بنا دیا ہے۔ دقیانوسی خیالات کا شکار ہمارا یہ معاشر ہ انسانی بھلاٸی کی کوٸی کارآمد چیز ایجاد کرنے سے قاصر تو ہے ہی مگر دوسروں کی ایجاد کردہ کارآمد چیزوں کو منفی سرگرمیوں کے لۓ استعمال کرنے میں بھی ید طولا رکھتاہے۔