رمضان المبارک ……. خطیب شاہی مسجد چترال کی خصوصی تحریر
تحریر: مولانا خلیق الزمان
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہرسال اسلئے آتا ہے کہ سال کے گیارہ مہینے انسان اپنی مادی مصروفیات میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ وہی مصروفیات اس کی توجہ کا مرکزبن جاتی ہے اور اس کے دل پرروحانی اعمال سے غفلت کے پردے پڑنے لگتے ہیں۔عام دنوں کاحال یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے کی مصروفیات میں خالص عبادتوں کا حصہ عموماًبہت کم ہوتا ہے۔اور اس طرح انسان اپنے روحانی سفر میں جسمانی سفر کی بہ نسبت پیچھے رہ جاتا ہے۔رمضان کامہینہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ اس مبارک مہینے میں وہ جسمانی غذا کے مقدار کم کرکے روحانی غذا میں اضافہ کردے اور اپنے جسمانی سفر کی رفتار زرا دھیمی کرکے روحانی سفر کی رفتار بڑھادے اور ایک مرتبہ پھر دونوں کاتوازن درست کرکے اس نقطہ اعتدال پرآجائے جو اس زندگی کی سب بڑی نعمت ہے اور اگر زرا غور سے دیکھیں تو اس نقطہ اعتدال پر پہنچنے کی حسرت ہے جس کا جشن عید الفطر کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے۔
لہذا رمضان المبارک صرف روزے اور تراویح ہی کا نام نہیں بلکہ اس کا صحیح فائدہ اُٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان اس مہینے میں نفلی عبادات کی طرف بھی خصوصی توجہ دے اور کسی کی حق تلفی کئے بغیر اگر اپنے اوقات کو ساری مصروفیات سے فارغ کرسکتا ہے تو انہیں فارغ کرکے زیادہ سے زیادہ نفلیں اور تلاوت ازکار وغیرہ کرے۔
کسی کی حق تلفی کئے بغیر میں نے اس لئے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں ملازم ہے تو ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے فرائض منصبی چھوڑ کر نفلی عبادات میں مشغول ہونا شرعاًجائز نہیں۔البتہ اگر اس کے پاس اپنے فرائض منصبی سے متعلق کوئی کام نہیں ہے اور وہ خالی بیٹھا ہوا ہے تو بات دوسری ہے۔لیکن کسی کی حق تلفی کئے بغیر بھی رمضان میں اپنی مادی مصروفیات پر شخص کچھ نہ کچھ ضرور کم کرسکتا ہے اور اپنے آپ کو ایسے مشاغل سے فارغ کرسکتا ہے جو یا تو غیر ضروری ہے یا انہیں موخر کیا جاسکتا ہے۔اسطرح جو وقت ملے اسے نفلی عبادتوں ذکر اور دعامیں صرف کرنا چاہیئے۔اسکے علاوہ رمضان کے دنوں میں انسان جب روزے کے حالت میں ہوتا ہے تو وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی کے تقاضے سے وہ چیزیں ترک کردیتا ہے جو عام حالت میں اس کیلئے حلال تھیں اب یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہوگی کہ انسان روزے کے تقاضے سے حلال کام ترک کردے لیکن وہ کام بدستور کرتا رہے۔جو عام حالت میں بھی حرام ہے۔وہ نہ چھوڑے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے۔کہ ایسا روزہ انسان کی روحانی ترقی میں کتنا مددگار ہوسکتا ہے۔
لہذا رمضان المبارک میں سب سے زیادہ اہتمام اس بات کا ہونا چاہیئے کہ آنکھ کان،زبان اور جسم کے تمام اعضاء ہرطرح کے گناہوں سے محفوظ رہیں۔اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ کوئی قدم اللہ تعالیٰ کے نافرمانی میں نہ اُٹھے۔
رمضان المبارک کو انحضرتؐ نے ایک دوسرے کے غمخواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔اس مہینے میں آپؐ صدقہ وخیرات بھی بہت کثرت سے کیا کرتے تھے۔اسلئے رمضان میں ہمیں بھی صدقہ وخیرات دوسروں کی ہمدردی اور ایک دوسرے کی معاونت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیئے۔یہ صلح وصفائی کا مہینہ ہے۔لہذا اس مہینے میں جھگڑوں سے اجتناب کا بھی خصوصی طورپر حکم دیا گیا ہے۔انحضرتؐ کا ارشاد ہے”کہ اگر کوئی شخص تم سے لڑائی کرنا چاہے تو اس سے کہدو کہ میں روزے سے ہوں“۔
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک صرف سحری اور افطاری کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تربیتی کورس ہے۔جس سے ہرمسلمان کو گزاراجاتا ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تعلق اپنے خالق مالک کے ساتھ مظبوط ہو۔اسے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کی عادت پڑے اورریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے اپنے اخلاق ازیلہ کو کچلے اور اعلی انصاف واخلاق اپنے اندر پیدا کرے۔اس کے اندر نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے پرہیز کا جزبہ پیدا ہو۔اس کے دل میں خوف خدا اور فکر آخرت کی شمع روشن ہو۔جو اسے رات کی تاریکی اور جنگل کے ویرانے میں بھی غلط کاریوں سے محفوظ رکھے اسی کانام تقویٰ ہے اور قرآن کریم نے اسی کو روزون کا اصل مقصد قرار دیا۔ارشاد ہے ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )“
جو شخص تقویٰ کے اس تربیتی کورس سے ٹھیک ٹھیک گزر جائے اس کے بارے میں ایک روایت ہیں انحضرتؐسے یہ خوشخبری منقول ہے کہ جس کا رمضان سلامتی سے گزر جائے اس کا پورا سال سلامتی سے گزرجائیگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان ہمیں سال بھر سلامتی سے ہمکنار کرنے کے لئے آیا ہے بشرطیکہ ہم سلامتی چاہتے ہوں اوریہ سلامتی حاصل کرنے کے لئے اس ماہ مقدس کا استقبال اور اکرام واعزاز کرسکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔آمین