کالمز
بکواس بند ہونا چاہیے
تحریر: صاحب مدد شاہ
جوں جوں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اسی مناسبت سے اس کی شخصیت میں نکھار ، معاشرے کے بارے میں فکرمندی اور تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے، معاشرے میں ناانصافی، غربت، اقراباپروری ، تعصب جیسے معاشرتی برائیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں "انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی ,اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی۔”
جہالت کے معنی اب لا علمی کے نہیں بلکہ اس میں افلاس ، کم ہمتی ، تنگ دلی ، بے غیرتی ، بداخلاقی سب کچھ آجاتا ہے ، جاہل وہ نہیں جو پڑھ لکھ نہیں سکتا وہ بھی جاہل ہے جو ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی شعور اور علم سے عاری ہو۔
آج ہمارا معاشرہ ان اندوہناک مسائل کا آماجگاہ بن گیا ہے جس کا تدارک معاشرے کی بقا کی کے لیے بہت ضروری ہے۔ معاشرے کو سلجھانے کی زمہ داری صاحب علم پر زیادہ عائد ہوتی ہے جو آپنی عقل و دانش سے معاشرے کو روشنی سے ہمکنار کر سکے۔
اس جدید دور میں لوگ علم اور شعور رکھنے کے باوجود بھی سچائی سے ناواقف ہیں اس کے بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ زاتی مفادات ہیں جو ایک پڑھے لکھے نوجوان کو ایک کم علم کے پھیچے کھڑے ہو کر اس کے گن گانے پر مجبور کرتے ہیں ، جو تعلم کی توہین اور پڑھے لکھے نوجوان کی کریڈیبلٹی پر بھی سوالات اڑتے ہیں۔
چلیں آپنے اصل مدعا پر بات کرتے ہیں. قارئیں کرام ابتدائیہ میں عقل و علم ، شعور و لاشعوریت پر بات ہو چکی ہے مجھے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میں کسی انسان کو کم عقل ، جاہل ، کاہل یا نکما کہ سکوں ۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے ماسوائے تقوی کے۔۔۔ انسان اپنی علم، لگن ، محنت ، ایمانداری اور پاکبازی سے فرشتوں سے بھی آگے کا مقام پاسکتا ہے اور معاشرتی اقدار سے راہِ فرار اختیار کرکے اپنے مقام سے گر کر زلت اور رسوائی بھی پا سکتا ہے۔
قارئین کرام اب آپ کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرح مبزول کرانا چاہتا ہوں جو آج کل سوشل میڈیا پر ایک سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے جو قابل تشویش اور قابل مزمت بھی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لیے کرائے کے ایجنٹ بیھٹا چکے ہیں جو ٹیکٹس میسجز اور فیک اکاؤنٹس سے عزت دار لوگوں کی شوشل میڈیا پر کردار کشی کرتے ہیں ، کچھ وفاداری اور بے وفائی کے سرٹفکیٹ بانٹ رہیے ہیں۔ نااعوز باللہ کچھ جنت اور دوزخ کا فیصلہ کررہے ہیں اور کچھ وطن فروش اور بیرونی ایجنٹ کے طعنے دیتے نہیں تھکتے۔
پڑھے لکھے اور مہزب لوگوں کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ اپنے نظریاتی یا سیاسی مخالفین کو زات پات، رنگ نسل ،زبان اور مذہب کی آڈ میں نیچا دکھانے کی کوشش کرے بلکہ اپنی علم ، دانائی، اخلاق، قابلیت، شرافت ، برداشت اور محنت سے شکست دینے کی کوشش کرے۔
قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے انتخابات 2020 میں متوقع ہیں جس کی تیاری ابھی سے ہی زور و شور سے شروع ہو چکی ہے، مختلف سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کو نیچے دیکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں ، آئے روز مختلف الزامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ، موسمی پرندے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمیت تبدیل کررہے ہیں اور کچھ تبدیل کر چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہوا کا رخ دیکھ کر موسمی پرندوں کا سمت بدلنا ہی گلگت بلتستان کی اصل تبدلی ہے اس سے بڑھ کر کسی تبدیلی کی تواقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ اور کچھ ایسے نام نہاد سیاستدان منظر عام پر نمودار ہوئے ہیں جن کا عوام اور عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ کسی بھی طریقے سے اپنے جھوٹے ہتھکنڈے استعمال کر کے اقتدار میں آکر اپنے مضموم مقاصد میں کامیابی چاہتے ہیں۔
اگر گلگت بلتستان کے چیدہ چیدہ مسائل کی نشاندھی کی جائے تو ان سب میں سرفرست آئینی تشخص کا ہے جس پر بات کرنا یا اس کی حمایت میںں اسمبلی میں کوئی قرار لانا یا تحریک چلانا کچھ ممبران اسمبلی کے علاؤہ کسی کی بس کی بات نہیں ہے، بدقسمتی سے ان حق پرست ممبران اسمبلی کی تعداد آٹے میں نمک کی برابر ہے۔
اپر بات ہو رہی تھی شوشل میڈیا پر بکواسیات کا ایک نہ ختم ہونے والا ٹرینڑ شروع ہوچکا ہے جس میں کچھ نام نہاد سیاستدان کو وقت سے پہلے اپنی شکست کا علم ہونے کی کی وجہ سے اپنے سیاسی مخالفین پر جھوٹے الزامات اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں کبھی ٹیکسٹ میسجز کے زریعے دھمکیاں ملتی ہے ، کھبی گھر والوں کو اپنے چمچوں کے زریعے حراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک صاحب نے حد ہی کر دی کہ پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان نے پیپلز پارٹی پر تنقد کرنے پر 5 کروڈ ہتک عزت کا ریڈ پٹیشن گلگت چیف کورٹ میں دائر کرنے دھمکی دی ہے۔ اچھا ہوا وقت سے پہلے گلگت بلتستان کو ستر سالوں سے نوچنے والوں کے پول کھل رہیے ہیں تاکہ عوام اپنا لیڈر کی انتخاب میں سنجیدگی سے کام لے سکے۔ گلگت بلتستان کے نوجوان کو اس انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ازل سے مزہب ، زبان اور اور فرقہ واریت کے نام پر لوگوں تقسیم کر نے والوں کا قلعہ قمہ کرکے اس بکواس کو مکمل سے ختم کرنا چائیں۔