عبدالحمید خان کا سرنڈر اور موجودہ حالات کا تجزیہ
تحریر: کریم مدد
عبدالحمید کے سرنڈر نے بہت سے لوگوں کو وجود کے بحران سے دوچار کر دیا ہے… ایک طرف ہمارے وہ قوم پرست خوفزدہ ہیں جو عملی میدان میں نہ سہی سوشل میڈیا پہ تحریک کامیابی سے چلا رہے ہیں… وہ ہر اس شخص کو لتاڑتے ہیں جو وفاق پسند ہونے کا اعلان کرے دوسری طرف ہر اس شخص کو اپنا کامریڈ سمجھتے ہیں جو مرکزِ گریز بیانیے کا حامی ہو یا پھر وفاق پہ تنقید کی ہمت دکھا دے… ان قوم پرستوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ تو تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں نہ ہی زمینی حقائق کا درک… وہ ایک سطحی جذباتیت کا علَم تھامے کہیں بھی ہلہ بول دیتے ہیں. ان کی باتوں میں نظریاتی وابسطگی کی بجائے شخصیت پرستی اور وفاق دشمنی نمایاں ہوتی ہے… اب جب سے حمید کی کہانی منظر عام پر آئی ہے تو ان قوم پرستوں کو سمجھ نہیں آرہا کیا بیانیہ اختیار کیا جائے… ان کو ڈر ہے کہ ریاست حمید خان کی آڑ میں دیگر قوم پرستوں پہ دباؤ بڑھا سکتی ہے نیز یہ کہ عوام بھی حمید کی مثال سامنے رکھ کر قوم پرست لوگوں پہ بھروسا کرنے سے کترائیں گے.. کیونکہ عوام تکنیکی بھول بھلیوں سے آگاہ نہیں ہوتے نہ ہی وہ حمید کے ساتھ دیگر قوم پرستوں کے اختلافات کی نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں سو حمید کا انجام عوام کو قوم پرستوں سے بدظن کرنے کے لیے کافی ہے.۔ اس صورت حال میں یہ قوم پرست کس طرح اپنا موقف عوام کو سمجھا پائیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا… فی الحال میرا خیال یہ ہے کہ حمید خان کے ویب پیج پہ جو اعترافی مضمون چھپا ہے وہ بھی انہی قوم پرستوں میں سے کسی کی کارستانی نظر آتی ہے.. اس سارے مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جو ان قوم پرستوں کے بیانیے کے موافق ہے. ایک یہ کہ حمید دراصل پاکستانی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتا رہا ہے اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ اسی ایجنسی کے پلان کے مطابق کیا.. دوسری بات یہ کہ اس اعترافی بیان میں ایک قوم پرست جماعت اور اس کے سربراہ کو کلئیر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے اور یہ تاثر دیا گیا ہے کہ دراصل حمید نے اس جماعت کو اندھیرے میں رکھا اور پھر بعد میں پیسوں کے زور پر اس جماعت کے بہت سے کارکنوں کو بھی خود سے ملایا…
دوسری طرف وہ لوگ بھی اپنی شرمندگی چھپانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں جو کسی زمانے میں حمید کے دست وبازو رہے ہیں, اس کے گن گاتے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے کلابے ملاتے رہے ہیں اور پھر حالات کا رخ دیکھ کر وفاق پرست بن چکے ہیں…
جہاں تک بات ہے قوم پرستوں کی تو اس وقت جی بی میں بی این ایف واحد جماعت ہے جو اس خلا کو پر کر سکتی ہے اور اگر اس جماعت کی لیڈرشپ سمجھداری کا ثبوت دے تو موجودہ صورت حال کو اپنے حق میں بھرپور استعمال کر سکتی ہے… حمید کے ساتھ ناجی کے اختلافات واضح ہیں, ناجی نے برملا حمید پر کڑی تنقید کی ہے اور ایک واضح موقف کے ساتھ سخت سے سخت حالات میں ڈٹے رہیں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جماعت میں صفِ دوم لیڈرشپ کا فقدان ہے. ناجی کے علاوہ اس جماعت میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر نہیں جو پارٹی کے بیانیے کو سمجھتا بھی ہو اور سمجھا بھی سکتا ہو… تنہا شخص اپنے نظریات کی بنیاد پر فلسفی یا مفکر تو بن سکتا ہے لیکن سیاسی لیڈر بننے کےیے ٹیم کو ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوام تک آسانی سے رسائی ہو. بی این ایف کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ناجی کی شخصیت چنار کے درخت کی طرح اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ اس کے گھنے سائے کے نیچے کارکن سستا تو رہے ہیں لیکن پھلنا پھولنا بھول گئے ہیں… اگر یہ جماعت اپنی صفوں میں سے چند اور لیڈرز تلاش کرے اور ناجی صاحب کی رہنمائی میں یہ لوگ عوام تک اپنا بیانیہ لے کر جائیں تو جی بی کی واحد قوم پرست جماعت بن کر عوام میں مقبولیت حاصل کر سکتی ہے اور زیادہ وسیع پیمانے پر اور بہتر طور پر قوم کی نمائیندگی کر سکتی ہے اور جی بی کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے…
رہی بات ابن الوقت قسم کے ان لوگوں کی جنہوں نےحمید سے فائدے حاصل کیے اور وقت آنے پر وفاقی جماعتوں کی گود میں بیٹھ گئے تو ان کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جس وفاق کے نمائندے ہیں وہاں چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اور مفادات کی خاطر نظریات کا سودا کرنا عام سی بات ہے…