کالمز
کراچی یونیورسٹی میں ایک یادگار سیاسی مکالمہ
تحریر. اشفاق احمد ایڈوکیٹ
آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے جب کراچی یونیورسٹی میں ایک نیپالی طالب علم سے گفتگو کا موقع ملا، یہ وہ دور تھا جب کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اپنی عروج پر پہنچ گئی تھی، ملک میں مشرف کا سکہ چل رہا تھا اور ھمسایہ ملک نیپال میں بادشاہت کا نظام رائج تھا اور نیپال کے ماؤ نواز باغی اس سے ناخوش تھے اور نیپال کے شاہی خاندان کے خلاف مسلحہ انداز میں دست و گریباں تھے ۔
بادشاہ سلامت تخت چھوڑنے پر راضی نہیں تھے اور ماؤ نواز باغی ہر صورت بادشاہت کا خاتمہ چاہتے تھے،جبکہ پاکستان کے اندر بعض مارکسی دانشور اس جدوجھد کو ایشیاء کے اندر پھوٹنے والے سرخ سویرے سے تشبیہ دیا کرتے تھے،.
نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما Parachandaجبکہ وینزویلا کے ہوگوشاویز اور مشہور Bay of pigsمیں امریکن سی ای اے کو شکست سے دوچار کر کے کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے فیڈل کاسترو اور ارنسٹو چی گویرا ،کے علاوہ برطانیہ میں انگریزوں کے کالونیل سسٹم کے خلاف مزاحمت کرنے کے الزام میں سولی چڑھنے والے نوجوان بھگت سنگھ ان سوشلسٹ وچار کے حامل نوجوانوں کے ہردلعزیز ھیرو مانے جاتے تھے۔
البتہ ماؤ نواز یا سٹالن کے حامی اور ٹراٹسکی سے متاثر کامریڈز کے درمیان اس بات پر بھرپور اختلاف پایا جاتا تھاکہ ان سب عظیم رہنماؤں میں حقیقی سوشلسٹ کون تھے؟
میرے ایک دوست کا ماننا تھا کہ ارنسٹو چی گویرا کو مارنے میں امریکن سی آئی اے اس لیے کامیاب ہوئی چونکہ چی گویرا نے فیڈل کاسترو کی بات نہیں مانی تھی اور اسے کیوبا کے اندر ہی آرام کرنا چاہیے تھا اگر وہ کاسترو کی بات مانتے تو آج ہمارے درمیان ذندہ ہوتے اور دنیا کے پسے ہوئے طبقات کے لیے زیادہ فایدہ مند ہوتے۔
اس طرح کے عجیب وغریب فکری موضوعات پر بحث و مباحثہ کے دوران کھبی کھبی وہ انقلابیوں سے زیادہ کسی مذہبی فرقے کے مرید لگتے تھے البتہ امام انقلاب یعنی عظیم روسی انقلاب 1917کے بانی ولادیمیر لینن جس نے مشہور دستاویز
What is to be Done
بھی لکھا ہے کو سوشلسٹوں کے سبھی جھتے ایک عظیم لیڈر مانتے تھے جو کارل مارکس اور اینگلز کے بعد علمی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں اور ان کا ایک قول کامریڈز کے درمیان مشہور ہے کہ
There are comrades or enemies.
بہرحال سوشلزم سے متاثر طالب علم حضرات ماؤ نواز باغیوں کے متعلق بحث و مباحثہ کرتے ہوئے اکثر اس بات پر جذباتی ہو جاتے تھے کہ لینن کے بعد روس میں سٹالن نے انقلاب کو ہائی جیک کیا اور لیون ٹراٹسکی کو اقتدار سے محروم کیا اور سوشلزم کو سٹیٹ کپٹلیزم میں بدل دیا اور نیشنل شوشلزم کو پروان چڑھا کر شوشلزم سے غداری کی ھے ،،.
جبکہ چین کے ماؤ نے جو انقلاب کیا تھا وہ کسان انقلاب تھا جبکہ کارل مارکس نے کہا تھا کہ انقلاب تو انڈسٹریل ورکرز یعنی پرولتاریہ کرئے گا وغیرہ وغیرہ ایک طرف سوشلزم کا ماحول لاطینی امریکہ سے نیپال تک گرم تھا، تو دوسری طرف بنیاد پرست نظریات سے متاثر طالبہ و طالبات بشمول بعض استاتذہ کرام بھی سرخ نظریات رکھنے والوں کو ناپسندیدہ مخلوق سمجھتے تھے اور کھبی غبار بنیاد پرست طلبا تنظیموں کے لشکر سرخوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس پر حملے بھی کرتے تھے، اور کبھی غبار مارپیٹ کر یونیورسٹی سے باہر نکل جانے پر مجبور کیا کرتے تھے، اگلے دن کامریڈ لوگ اسی جذبے کے ساتھ واپس یونیورسٹی کے کسی کینٹن میں نظریات پر بحث کرتے نظر آتے تھے۔ یہ علم سیکھنے کے دن تھے !
ان دونوں سوشلزم کے نظریات رکھنے والے دوستوں کے ساتھ ساتھ بنیاد پرست نظریات کے حامل دوستوں اور استاتذہ کرام سے بھی سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ ان کی محبت اور شفقت قابل ستائش ھے۔
اس طرح کے پس منظر میں نیپال کے شاہی دربار کے ایک طالب علم کے ساتھ ملاقات کرنا کافی دلچسپ بات تھی۔
دوران گفتگو پتہ چلا کہ طالب علم موصوف جس کا نام اب ذہن سے محو ہو گیا ھے وہ شاہی دربار کا ایک ملازم ہے اور سیاست میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں، تو بحثیت انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایک طالب علم میں نے اس سے پوچھا کہ
In your opinion which political system is better Autocracy or Monarchy?
0r Socialism or Maoism for which the comrades are fighting ?
تھوڑی دیر کے لئے تو وہ خاموش رہا پھر جواب دیا
If your people are educated then it doesn’t matter whether you are living under a kingdom or socialism.
Look at England they have a kingship but at the same time it’s mother of all democracies in the world.
بہرحال کافی طویل بحث و مباحثے کے دوران چائے کے دو کپ پینے کے بعد ھم اپنے اپنے راستے پر چل دیئے مگر سالوں بعد ماضی کے مزار میں جھانکنے سے اب لگتا ہے کہ بات تو اس نے ٹھیک ہی کی تھی کہ لوگ پڑھے لکھے ہوں تو نظام بدل بھی سکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ تاج برطانیہ کے بادشاہ سلامت اور ہاؤس آف لارڈز کے پیرز بھی بھلا کہاں خوشی سے اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئے تھے؟
برطانیہ کی چارٹسٹ تحریک بھی دراصل مزدوروں کی سیاسی تحریک تھی، اس کا نعرہ تھا سیاسی اقتدار ھمارا ذریعہ ، سماجی مسرت ھماری مقصد۔
چارٹسٹ تحریک سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں تو ناکام رہی البتہ 1846کی آئینی اصلاحات میں عوامی چارٹر کے سبھی مطالبات منظور کر لیے گئے۔
چارٹسٹ تحریک کا آغاز یوں تو انقلاب فرانس کے زمانے میں ہی ھو چکا تھا جب جولائی 1830کے انقلاب میں بادشاہ چارلس دہم کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔
لیکن چارٹسٹ تحریک کا اصل زور 1835کے لگ بھگ شروع ہوا اس تحریک کے پہلے مرکز برمنگھم اور مانچسٹر تھے لیکن بعد میں لندن اس کا صدر مقام بن گیا۔اور طویل جدوجھد کے بعد بادشاہ سلامت کا نام ہی باقی رہ گیا اختیار عوامی نمائندوں کو مل گیا اور کچھ ایسا ہی نیپال میں بھی ہوا کمیونسٹ پارٹی آف نیپال اور نیپال کے شاہی خاندان یعنیShah Monarchy of Gorkh
کے درمیان 1996سے 2006تک مسلحہ جنگ جاری رہی، دس سالہ اس جنگ میں ھزاروں افراد کو قتل کیا گیا۔
اس جدوجھد کا مقصد نیپال سے بادشاہت کا خاتمہ کر کے اس کو ایک سیکولر عوامی ریپبلک بنانا تھا۔
اگرچیکہ دونوں ملکوں کے لوگوں نے مختلف معروضی حالات میں مختلف انداز سے جہدوجہد کیا تھا، البتہ ایک بات طے ہے کہ بادشاہت اس وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک لوگ ظلم و جبر کے خلاف جدوجھد نہیں کرتے ہیں۔
قصہ مختصر
چند سال بعد اخبارات پڑھنے سے پتہ چلا کہ ایک طویل جدوجھد کے بعد نیپال میں جاری 240سالہ بادشاہت کے کیساتھ شاہی دور کا بھی خاتمہ ھوا۔ اس طرح بلاآخر نیپال کا نظام بھی بدل گیا! اور نیپال ایک سیکولر عوامی ریپبلک بنا۔
مگر ہمارے نظام کو دیکھ کر جون ایلیا کا ایک مشہور شعر یاد آتا ہے کہ
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
وہ رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں۔