خبیب کالج گلگت۔۔۔۔۔۔ یتیموں کا سایہ
تحریر: فیض اللہ فراق
لفظ "یتیم” اپنے دامن میں ایک گہرا مفہوم اور کرب رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انگنت ایسے یتیم بچے بچیاں موجود ہیں جن کے سروں سے والدین کا سایہ آٹھ گیا ہے اور ان پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایک لمحے کیلئے غور کریں جب انگلی پکڑ کے چلنے کا سلیقہ اور حوصلہ دینے والا باپ موجود نہ ہو اور مامتا رکھنے والی ماں کا وجود بھی نہ ہو تو ایک بچہ کہاں جائے گا؟ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا اللہ ضرور ہوتا ہے لیکن اللہ تعالٰی بھی اسباب پیدا کرتا ہے اور وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ یتیموں کی دیکھ بھال کا وسیلہ بناتا ہے۔ اللہ جسے پسند کرتا ہے اسے یہ سودا عطا کرتا ہے۔ گلگت بلتستان میں بیت المال کے تعاون سے قائم سویٹ ہوم’ حسین احمد کا یتیموں کیلئے تدریسی مکتب اور برمس کے مقام پر اعلی شان یتیم خانے کا تو سنا تھا مگر گزشتہ مہینوں ” خبیب کالج گلگت” کے نام سے قائم یتیم خانہ وزٹ کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ادارہ نہ صرف یتیموں کو رہائشی سہولیات فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ دار بھی ہے اس کے علاوہ یتیم طلبہ کو سفری سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ گلگت کے وسط میں واقع خبیب ہاسٹل کی صاف ستھری عمارت اور تمام تر لوازمات سے بھرپور کمرے ‘ بہترین کچن اور یتیموں کے کھانے پینے کا قابل تقلید مینو سے اندازہ ہوا کہ خبیب کالج ایک ادارہ نہیں بلکہ یتیموں کیلئے سایہ کے مانند ہے۔ اس ہاسٹل میں داریل تانگیر سے لیکر گلگت بلتستان کے کونے کونے سے بچے رہائش پذیر اور زیر تعلیم ہیں۔ ہاسٹل میں مقیم ان یتیم بچوں کی اپنی ایک دنیا ہے اور آپس میں گھل مل کے زندگی کے خوبصورت دن گزار رہے ہیں۔ خبیب فاونڈیشن گلگت بلتستان کے کوارڈینٹر اور ایڈمن خبیب کالج گلگت میر بہادر سے یتیم خانے کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ ترکی کی سب سے بڑی این جی او (IHH) کے تعاون سے چل رہا ہے یہ تنظیم دنیا کے 140 ممالک میں یتیموں کی طرز زندگی بدلنے پر کام کر رہی ہے اس وقت اس این جی او کی توسط سے دنیا میں لاکھوں یتیم بچے پڑھ لکھ کر اپنے پاوں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ گلگت بلتستان خبیب فاونڈیشن قدرتی آفات سے پیش آنے والی صورت حال میں متاثرین کی بحالی کیلئے پیش پیش رہتی ہے۔ گلگت میں قائم یتیم ہاسٹل میں اس وقت 60 بچے زیر تعلیم ہیں جبکہ 20 بچے گلگت سے ہری پور خبیب کالج منتقل ہوئے ہیں۔ ہری پورہ میں قائم یہ ادارہ ایشیا کا سب سے بڑا یتیم خانہ ہے۔خبیب کالج گلگت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے کوارڈینٹر میر بہادر اپنے بچوں کی طرح یتیموں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔یتیم بچوں سے راقم کی گفتگو بھی ہوئی جن میں سے زیادہ تر بچوں کا تعلق دیامر کے علاقے داریل تانگیر سے ہے۔ بچوں نے اپنے علاقے کی تلخ کہانیاں شئیر کی۔زیادہ تر بچوں نے یتیم ہونے کی بڑی وجہ ذاتی دشمنیاں قرار دی ایک بچے نے کہا؛ انکل میں داریل کا ہوں میرے والد کو دشمنوں نے قتل کیا تھا اور ہم تین بھائی یتیم ہوئے ہیں ہم تعلیم کیلئے کہاں جاتے ہمارے پاس تو کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ بچے نے مذید کہا کہ خبیب کالج میں آنے کے بعد اب یہ ہاسٹل اپنا گھر لگتا ہے یہاں باپ کی طرح لوگ شفقت کرتے ہیں اور ماں کی طرح لوگ کھانا پکا کر دیتے ہیں کپڑے صاف کر کے دیتے ہیں۔ خبیب فاونڈیشن اور خبیب کالج کی یہ خدمات قابل رشک ہیں ‘ وہ بچے جو معاشرے میں تنہا ہوچکے تھے جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا انہیں ایک بہترین ماحول میں زندگی کی تمام ضرورت پوری کرنے میں پیش پیش ہے۔ یتیموں کی بحالی کا اس سے اچھا اور منظم ادارہ کم و بیش ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔