دہشت گردی: مختصر جائزہ
تحریر: وجاہت سلطان
دہشت گردی کسی خاص یا مخصوص کرہ عرض پر متعین و محدود نہیں دہشت یا ڈر انسان کے سرشت میں چھپی ہوئی ایک محرک یا تحریک ہے۔ کرہ عرض پر جہاں نسل انس موجود ہے وہاں دہشت یا دہشت گردی کا ہونا مقصود ہے۔ اگر حال کے حالات و وقعات کا جائزہ لیا جائے تو دہشتگردی صرف ایک ٹرم نظر آتا ہے حلانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جیسا کہ اپر بیان ہو چکا ہے کہ دہشت انسان کی سر شت میں ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے اندر چھپی ہوئی اس محرک کو تحریک دینے کے لیے کوئی طریقہ بھی ضرور ہے تاکہ ممکنہ نتائج حاصل ہو اس طریقہ کار کو ہم دہشت گردی کہہ سکتے ہے ۔ دہشت گردی کوئی نئی ایجاد کردہ نظریہ یا تحریک نہیں یہ ماضی میں بھی موجود تھی حال میں ہے اور مستقبل میں جب تک اس کرہ عرض پر نسل انس ہے جاری رہے گی گو کہ اس پر عمل درامد کرنے طریقہ کار وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہے مگر ان کے مقصودات ایک ہی ہونگے۔
دہشت گردی کو سمجھنے کے لیے ایک عام سی مثال سے اپ شروع کریں گوکہ اپکو عجیب بھی لگے گا کہ یہ کیا احمقوں والی بات ہے مگر جب آپ اپنے تمام حواس مزکور کر کے سوچیں گے تو دہشت گردی کو اچھی طرح سمجھ بھی لیں گے اور اس کے مقصودات بھی اپ پر واضح ہو جائیں گے۔ اپنے اردگرد کے ماحول پر ایک بار نظر دوڈائیں اپ محسوس کر سکھیں گے کے ہم کس طرح دہشت گردی سے متاثر ہے اور ہمارے روزمرہ کے معمولات پر اس کا کیا اثرات ہے۔ایک چھوٹے پیمانے پر اپنے اردگر دیکھیں اپکو اپنے گرد مختلف قسم کے دہشت گرد ملیں گے جیسے کہ ماں باپ بچوں کے لیے ایک طرح کے دہشت گرد ہے وہ بچوں کو ان کے اختیار کے اپر کام کرنے نہیں دیتے بلکہ وہ ان کو اپنے اصول و ضوابط اور اپنے فرمان کے زیر چلانے کی کوشش کرتے ہے کیونکہ بچوں کی نسبت والدین زیادہ دانا اور عقل اور معاشرے کا تجربہ رکھتے ہے کہ زندگی گزارنے اور ایک اچھے ماحول کے لیے کیا کرنا چاہیے کیا نہیں ۔ والدین بچوں کو اپنے نظریے پہ لانے کے لیے بچوں کے اپر مختلف طریقے سے کام لیتے ہے ان میں سے ایک طریقہ دہشت زدہ کرنا بھی ہے اس لحاظ سے والدین بچوں کے لیے دہشت گرد کے زمرے میں آ گئے۔ ایک استاد کا اپنے شاگردوں کو دہشت زدہ کرانا خواہ وہ امتحان کے حوالے سے کیوں نہ ہو وہ بھی بنیادی طور پہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح بڑے ایک فرد معاشرے میں وہ کام سر انجام نہیں دیتا جس سے معاشرے نے اس کو روکا ہو اگر اس کے باوجود بھی وہ ان معاشرے کے اصول سے انحراف کرتا ہے تو معاشرے کی رو سے اسے برا ادمی تصور کریں گے ۔
یہی سوچ کہ معاشرے میں برا بلا کہلانے کے ڈر سے فرد معاشرے کے شکنجے میں رہتا ہے اور اپنی من مانی اپنے مرضی سے کام نہیں کر سکتا یہی خوف ڈر دہشت جس کو معاشرے نے پیدا کی ہے وہ معاشرے کا افراد کو اپنے زیر میں لانے کے لیے دہشت گردی کرتاہے یہ معاشرے کی دہشت گردی ہے۔ ایک فرد اپنے مزہب کے احکامات کو سر خم کر کے تسلیم کرتا ہے اور گناہ سے جتنا ہو سکے دور بھاگ جانے کی کوشش کرتا ہے یہ اس کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ اس کا کمال ہے جس نے اس فرد یا پیروکار کے سرشت میں چپھی ہوئی ڈر اور دہشت کو سمجھ کر اس کے گناہ کے ارتکاب کے عوض اس کو جہنم کی آگ اور اللہ تعالی کے قہر سے ڈرایا جس سے وہ ڈر سے گناہ کا ارتکاب سے رک جاتا ہے اوربلا چوں چراکئے مزہب کے امور کو تسلیم کرتاہے یہ مزہب کی دہشت گردی ہے۔ اس طرح ایک فرد مجرم بننے کی ڈر سے ایک ریاستی قانون کو نہیں توڑتا کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ ریاستی قانون نے اس کے لیے سزا کا عمل رکھا ہے جس کی بدولت وہ جرم کرنے سے ڈر جاتا ہے یہ ہوتی ہے قانون کی دہشت گردی ہے۔ اب اپ غور کریں معاشرتی اقدار سے انحراف کرنے والا برا قانون سے منحرف فرد مجرم اور مزہب سے منکر یا مزہب کے اصول کو نہ ماننے والا کافر یا گناہ گار تصور ہوتا ہے یہ تینوں نام الگ الگ ضرورہے مگر ان کے مقصودات ایک ہی ہے کہ انسان کو قابومیں لانا۔گو کہ یہ تینوں نظریات ایک فردکے اپر کسر کرتے ہے اسے ڈراتےہے اوراسے روکے رکھتا ہے وہ تینوں اس کے لیے دہشت گردہے۔ فرد کسی نہ کسی طرح سے ان نظریات اوران کے احکامات کے دئرہ کا ر کے اندر ہے چاہے وہ معاشرہ ہو قانون ہو یا مزہب اگر وہ ان کے احکامات کو بلا چوں چراں کیے ان پر عمل پیرا ہو تو جو نظریہ کے مقصودات تھے وہ پوراہو گئے اگر اس کے برعکس فرد اس سے انحراف کرتا ہےوہ اس نظریے کے لیے دہشت گرد اور نظریہ اس کے لیے دہشت گردی یک طرفہ نہیں ہوتی بلکہ یہ دونوں اطراف سے ہوتی ہے اور دونوں مخالف یا فریقین یہی چاہتے ہے کے ایک دوسرے کے اپر غالب آجائے اس کشمکش اور دونوں کی تضاد سے تصادم وجود میں آتا ہے اور اردگرد کا ماحول بگڑ جاتا ہے لوگوں میں خوف و ہراس بے چینی بد امنی پھیل جاتی ہے اور باہمی اعتماد زائل ہونے لگتا ہے اور بلا اخر جو نا اہل نظریہ یا حکومت گر جاتی ہے ۔
جاری ہے۔ ۔۔۔