کالمز
گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کو قدرتی آفات سے بچانے میں سول سوسائٹی کا کردار
تحریر:علی مدد
پچھلے کئی سالوں سے گلگت بلتستان سیاحوں کا مرکز بنتا جارہا ہے ، یہاں کا قدرتی حسن پوری دنیا سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لارہا ہے۔ سیاحوں کی تعداد میں سالہاسال اضافے کی کئ ایک وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہاں امن وامان کے بہتر حالات اور سیاحوں کا سکیورٹی اقدامات پر بھرپور اعتماد ہے ۔ دوسری اہم وجہ ، قدرتی حسن و رعنائی کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کا سیاحوں کے ساتھ حسن اخلاق، مہذب رویہ ، شائستگی اور مہمان نوازی ہے۔
گلگت بلتستان کا اپنا ایک منفرد کلچر اور صدیوں پرانے آزمودہ اقدار ہیں ، جس میں انسانی قدروں، لوگوں کی جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کو سب سے زیادہ اور نمایا حثیت حاصل ہے۔ کاروبار کرتے ہیں ، کماتے ہیں ، لیکن اپنے اقدار اور رسم ورواج پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں، جیسے اکثر ملک کے دیگر سیاحتی مقامات میں دیکھنے کو ملتا ہے ، سیاحوں کے ساتھ غیر مناسب برتاؤ وغیرہ۔
گلگت بلتستان میں سیاحت کے شعبے میں ترقی کی وجہ سے جہاں ہزاروں افراد کی معیار زندگی بہتر ہوئی ہے ، اربوں روپیہ ہر سال آرہا ہے، وہاں بڑھتی مقامی ابادی ، موسمیاتی تبدیلیوں ، جنگلات کا کٹاؤ، سیاحوں کا پریشر ، سیاحتی مقامات میں ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلے مناسب اقدامات کا فقدان، سیاحوں میں قدرتی ماحول کو تحفظ دینے ، ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے متعلق عدم آگاہی، نہ صرف علاقے کے قدرتی حسن کو ماند دیتا ہے بلکہ مقامی ابادی ، ان کے جان و مال کیلے مسلسل خطرہ اور چیلنج بنتا جارہا ہے۔ زمینی کٹاؤ، گلیشئرز کا غیر فطری انداز میں پگھلنا، سیلاب کا اندیشہ ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے۔
یہاں کی عوام پچھلے ایک عشرے میں دو بڑے قدرتی آفات کا سامنا کیا ہے ، جس میں سینکڑوں قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا ہے، عطا آباد جھیل اور گیانگ کا دل دھلانے والے واقعات ہمارے سامنے ہیں ، جس میں ڈیڑھ سو پاکستان آرمی کے جوانوں نے جانیں گنوا دیے ، عطا آباد حادثے میں قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کے گاؤں جھیل کے آغوش میں چلے گیے ، یہاں کے باسیوں کو اپنے گھروں اور سونا اگلنے والی زمینوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مقامی حکومت کے پاس اتنی گنجائش موجود نہیں ہے جو تن تنہا اس مسلے کا تدارک کرسکے۔ ان حالات میں حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی ، خاص کر سیاحت سے وابستہ افراد / کمپنیز پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ آگے بڑھے ، اس علاقے کو قدرتی آفات سے بچانے کیلے اپنا کردار ادا کرے ۔
باہمی مشاورت سے اس مقصد کیلے ایک علیحدہ فنڈ کا انعقاد بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ سیاحت سے وابستہ حضرات اپنا بھر پور حصہ ڈال سکتے ہیں، حکومت ہوٹلوں ، پرائیویٹ کمپنیوں ، ٹور آپریٹرز سے جزوی طور پر سیاحتی ٹیکس کے نام سے فنڈ اکھٹا کرسکتی ہے، یا سیاحت سے منسلک ادارے / افراد اپنے تئے کوئی initiative لے سکتے ہیں۔ مگر اس سے حاصل کردہ رقم صرف اور صرف سیاحتی مقامات کی بہتری ، ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور سیاحت کو مزید ترقی دینے کیلے ہی استعمال ہونا چاہے نہ کہ متعلقہ آفیسرز کی گاڑیوں کا ایندھن بنے۔
ٹیکس والی بات شاید میرے بعض بھایوں کو اچھی نہ لگے، لیکن ان کو یہ بات سمجھنی چاہیے ، قدرتی حسن کا تحفظ، آفات سے بچاؤ اور صاف ستھرا ماحول ہی سیاحت کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ ہماری ساری امیدیں ، ترقی و خوشحالی، گلگت بلتستان میں امن ، ناگہانی آفات اور تفریحی مقامات کے بچاؤ سے جڑی ہوئی ہیں۔
مجھے پورا یقین ہے جب لوگوں کو اعتماد ہوگا کہ ان کا پیسہ صحیح اور درست مقصد کیلے استعمال ہورہا ہے تو وہ دل کھول کر آپنا حصہ ڈالیں گے انشاللہ۔ اس خطہ جنت نظیر کو محفوظ و صاف ستھرا رکھنے میں کامیاب ہونگے ۔