ظفرشاکر: ایک قابل فخرسپوت رخصت ہوگئے
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی کے ابتدائی ایام میں ایک دن مشرف ہال میں تقریری مقابلوں کا اسٹیج سج گیا۔ مختلف شعبہ جات کے طلبا
وطالبات نے باری باری اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ کی باری آگئی تو ایک خوبصورت نوجوان چہرے پر مسکراہٹ لئے اسٹیج پر جلوہ گرہوئے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ خوشنما پوشاک و خوش گفتاراندازکے ساتھ انگریزی میں ایسی تقریر جھاڑی کہ سامعین وناظرین کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ احمد فراز کا شعر ”سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں“ موقع کی مناسبت سے ان پر صادق آتا تھا۔ استفسار پرمعلوم ہوا کہ اس حاحب باکمال شخصیت کا نام ظفر شاکر ہے جوایوننگ پروگرام میں ایم اے انگلش فائنل کے ٹاپر ہیں۔
اس دن سے دل میں ظفرشاکر صاحب سے تعارف کی ایک تمنااُٹھی مگرکلاسوں کے اوقات کار مختلف اوران کی گوں ناگوں مصروفیات کے سبب ان سے ملاقات کی یہ حسرت ایک وقت تک دل ہی دل میں رہ گئی۔ وہ بیک وقت متعدد سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ صبح کے اوقات میں پبلک سکول اینڈ کالج جوٹیال میں ملازمت، ایوننگ میں پڑھائی اور شام کو کوچنگ سنٹرز میں انگریزی زبان سیکھانے میں مگن تھے۔ کافی عرصہ بعد معلوم ہوا کہ ظفرشاکر صاحب انگریزی میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد شعبہ لسانیات کے ساتھ بطور لیکچرار منسلک ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اطمینان ہوا کہ اب توملاقات کیا ان کی شاگردی کا شرف ہی حاصل ہوگا۔
اسی امید کے ساتھ نئے سمسٹرمیں داخل ہوئے تو ٹائم ٹیبل کے تحت فونٹیکس اینڈ فنالوجی نامی مضمون کی پڑھائی ان کے سپرد تھی۔ نئے سمسٹرکی پڑھائی شروع ہوئیں تو ”تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا“ کے مصداق تھری پیس سوٹ میں ملبوس ہشاش بشاش استاد لیپ ٹاپ ہاتھ میں لئے کلاس روم میں داخل ہوگئے۔ مادری زبان کی طرح فرفر انگریزی لہجے میں علیک سلیک کے بعد تعارفی سیشن ہوا۔
مضمون متعلقہ پر باضابطہ لیکچر سے قبل اُردو میں کچھ وعظ ونصیحت کیں جوآج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ فرمانے لگے کہ انگریزی زبان پر عبورحاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں نہ ہی امتحان پاس کرنا کوئی قباحت ہے مگراس کے لئے محنت اولین شرط ہے۔ زندگی کے نشیب وفرازسے دوستی اور انسانی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرنا کامیابی کی ضمانت ہے اور ان چیلنجز سے انحراف مقصدحیات میں ناکامی کی نشانی ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ کورس ورک اور آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق اگاہی فراہم کرنے کے بعد کلاس سے رخصت لی۔
اس کے بعد ظفرشاکر صاحب کے ساتھ دلی لگاؤ ہوا جوآہستہ آہستہ استاد اور شاگرد کے رشتے سے ہٹ کر دوستی میں بدل گیا۔ اگلے سمسٹر میں بھی ایک مضمون کی پڑھائی ان کے ذمہ ہوئی اورانہوں نے بطریق احسن پڑھادیا۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں دوران تعلیم بہت سے اساتذہ سے واسطہ پڑا مگر چندایک نے اپنی شفقت اورپیارومحبت کے ذریعے دل میں گھربسا لیا۔ ظفرشاکرصاحب ان اساتذہ کی فہرست میں صف اول تھے جن کے ساتھ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک دوستی قائم رہی۔ اس کی وجہ ان کی خدا پرستی، انسانیت پسندی، احباب شناسی،سماج دوستی، حب الوطنی، خوش گفتاری اورذہن و قلب کشادگی جیسی خصوصیات تھیں۔
وہ ایک پیشہ ور معلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مقریر،محقق،شاعر، ادیب اور دانشور تھے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت ولگن سے بہت قلیل وقت میں کامیابی کے اعلیٰ منازل طے کئے۔مختلف محافل اور پروگراموں کے دوران فن میزبانی، اُردو اورانگریزی میں کمنٹری اورکمپئیرنگ میں تو ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ ہائی سکول ون گلگت کے طالب علم کی حیثیت سے اپنی قابلیت کے اعتراف میں نوعمر”نشان امتیاز“اپنے نام کرلیا۔2005میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز سے بیسٹ یوتھ ایوارڈحاصل کیا۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ ماڈرن لینگویجز کے پوزیشن ہولڈرطالب علم کی حیثیت سے سابق صدرپرویزمشرف کے ہاتھوں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
وہ اپنے چچا عبدالحفیظ شاکر کے اس شعر ”اس سرزمین کا قرض چکائے تو کس طرح“ پر عمل پیرا ہوکرگلگت بلتستان کی ثقافت اور زبان وادب سے جنون کی حدتک لگا ؤرکھتے تھے۔ شینا زبان پر ریسرچ میں انتہائی دلچسپی تھی اور دھرتی کے فرزندکی حیثیت سے اس سلسلے میں اپنے حصے کی شمع جلاتے رہتے۔
اس مشن کے تحت فرانس میں زبانوں کے حوالے سے منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شینا زبان اور گلگت بلتستان کی ثقافت پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔2016میں قراقرم یونیورسٹی کی وساطت سے ایک ٹیچنگ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ چلے گئے جہاں پر بھی شینا زبان اور گلگت بلتستان کی ثقافت پرمتعدد فورمز پر لیکچرز دینے پر بھرپورپذیرائی ملی۔ راقم نے اس حوالے سے ان سے مذید معلومات لیکران کی اس کاوش کوخبرکی صورت میں علاقائی اخبارات کی زینت بنادی تو جواباً فیس بک ان بکس میں محبت سے بھرپور داد موصول ہوئی۔
امریکہ سے واپسی پر ایک دن شام کے وقت ان کی کال آئی، خیریت دریافت کرنے کے بعد تفصیلی ملاقات کا وقت طے ہوا۔الصباح چوک جوٹیال میں طے شدہ وقت پر حاضرہوا تو استاد محترم پہلے سے منتظر تھے۔ حسب روایت چہرے پر مسکراہٹ لئے دور سے آواز دی ”آئی لو یو، مائی ڈئیرصفدر“۔ پاس آکرسلام کیا تو ایک لمحے تک گلے سے لگائے رکھا، ماتھے پر بوسہ دیا اور ہاتھ تھامے کرسی پر بیٹھ گئے۔ چائے کی چسکی کے ساتھ امریکہ میں گزرے ہوئے شب وروز بیان کئے۔ نشست برخاست ہونے پر گاڑی سے ایک پرفیوم کا تحفہ پکڑایا جومیرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
ظفرشاکر صاحب شروع دن سے محنت اور لگن سے کام کرنے کے قائل تھے چنانچہ انہوں نے اپنے روشن مستقبل کے تناظر میں صرف ماسٹرز ڈگری پر اکتفا نہیں کیا۔ جہد مسلسل میں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پرترقی پاگئے۔2017میں شعبہ لسانیات میں پی ایچ ڈی کرنے ائیریونیورسٹی اسلام آباد گئے اور وہاں پر بھی متعدد مواقعوں پر اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھاتے رہے۔
پی ایچ ڈی تو ایک دنیاوی تقاضا تھا، وہ اپنی عقل ودانش کے اعتبار سے کئی پی ایچ ڈیز سے بڑھ کر اسکالر تھے، وہ صرف نام کے ہی نہیں بلکہ کام کے بھی ظفر شاکر تھے۔ ان کے ارادے اور عزائم آسمان سے بھی بلند تھے۔ وہ اپنی قوم، زبان اور دھرتی ماں کے لئے بہت کچھ کرنے کی خواہشمند تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی اور مختصر علالت کے بعد عشق ابدی کے سفر پر روانہ ہوئے۔
ظفرشاکر صاحب کی ناگہانی موت ہم سب کے لئے بہت بڑاصدمہ ہے۔ پوری قوم ان کی بے موقع موت پر افسردہ ہے۔ان کی وفات سے گلگت بلتستان ایک قابل فخر سپوت اور ایک قیمتی اثاثہ سے محروم ہوگیا۔ وہ اپنی مختصر سی زندگی میں لوگوں میں خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹتے رہے اور جاتے جاتے سب کوغم کے آنسو تحفے میں دیئے۔
اللہ تعالیٰ استاد محترم کی روح کو اپنے جواررحمت میں اعلیٰ مرتبہ عنایت فرمائے اور لواحقین کو دکھ سہنے کی ہمت وطاقت عطاکرے۔ آمین!